فضل حسین اعوان ـ
میرے حسین وطن کو پھولوں سے لدے چمن کو کس کی نظر کھا گئی، یہ خدا کی طرف سے آزمائش ہے یا ہمارے اعمال پر فطرت و قدرت کی پکڑ۔ اگر آزمائش ہے تو معصوم بچوں کو تو قدرت نہیں آزماتی اگر شامت اعمال ہے تو عام لوگوں پر قیامت کیوں برپا ہو گئی ہے۔ پروردگار سے انصاف نہیں رحم کی التجا ہی کرنا چاہیے لیکن یہاں انصاف کے تقاضوں کی بھی بات کی جائے تو وہ ہستی الف کے اعمال کی سزا ب کو نہیں دیتی۔ جن کے شامتِ اعمال کے باعث عذاب نازل ہو وہ محفوظ کیسے رہ سکتے ہیں۔ یہ ایک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ کل تک میرے وطن کی چھاتی پر دریا بڑے بانکپن سے بہہ رہے تھے، ندیاں بل کھاتی ہوئی گنگنا رہی تھیں، پہاڑوں سے شفاف پانی کے چشمے ابل کر ریگزاروں اور صحراوں کو گلزار بنا رہے تھے، مسکراتے چمن لہلہاتی کھیتیاں، سایہ دار جھومتے شجر پھلوں سے لدے پھندے درخت ارض پاک کا نور تھے اہل وطن کی آنکھوں کی ٹھنڈک دماغوں کی طراوت، لطافت اور دلوں کا سرور تھے۔ شفق سے پھوٹتی روشنیاں رنگ و نور کی برسات بن کر افق تک پھیلتی چلی جاتی تھیں جس سے فضائیں منور اور ہوائیں معطر تھیں۔ پھر کیا ہوا! میرے وطن اور ہم وطنوں پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ آدھا ملک ناگہانی آفت کی لپیٹ میں آ گیا، جھومتے دریا بل کھاتی ندیاں لہلہاتے کھیت، پھولوں سے لدے پودے، پھول کی بہار دکھاتے اشجار، سبزے کے زیبا بدن پر مرمریں شبنم کے قطرے کچھ بھی سلامت نہ رہا۔ پانی کی بے رحم موجیں سب کچھ بہا کر لے گئیں۔ انسانوں کو بھی انسانوں کے مسکن، ضروریات زندگی اور جانوروں کو بھی ایسی دربدری کہ انسان اپنے ٹھکانے اور پرندے آشیانے کھو بیٹھے۔ آدھا ملک ڈوب گیا 4 کروڑ انسان متاثر ہوئے.... جو محفوظ ہیں ومجبور ہیں، زمین پر آفتیں آتی اور قیامتیں ٹوٹتی ہوئی دیکھی ہیں ان کا عرصہ ہی کتنا ہوتا ہے۔ پاکستان کی سرزمین کو تہہ و بالا کر دینے والے زلزلے کا دورانیہ آدھا منٹ تھا اس کے بعد امدادی کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ بڑے بڑے سونامی دوچار دن سرپٹخ کر اتر جاتے ہیں۔ یہ سیلاب ایک قہر بن چکا ہے ایک طرف سے زور ٹوٹتا ہے تو دوسری طرف بپھر کر تباہی مچا دیتا ہے۔ قوم کو ریلیف فنڈ قائم کرنے والوں کی نیت پر اعتبار نہیں وہ خود مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کی حسرت لئے بیٹھی ہے۔ پانی اسے متاثرین تک پہنچنے نہیں دیتا ادھر لینے والوں کی بے بسی کی داستانیں ہیں ادھر دینے والوں کی حسرتیں ہیں۔ پانی میں گھرے زندہ بچ جانے والے انسان خوراک اور ادویات سے محروم، مرنے والوں کی لاشیں محفوظ نہ ان کو قبریں نصیب، بچے بھوک سے بلک بلک کر سو جاتے ہیں۔ کل کے لکھ، کروڑ اور ارب پتی لوگوں کو ایک پل چین نہیں قرار نہیں ان کی اشکوں میں سحر ہوتی اور اشکوں میں شام ہوتی ہے۔ ان کی زندگیوں میں طرب کی جگہ کرب نے لے لی، سُکھ ہوا ہوا دکھ برسنے لگا شامِ غم شبِ ظلمات میں ڈھلتی نظر آ رہی ہے یہ لوگ اپنے پیاروں سے بچھڑنے آشیانوں اور شبستانوں سے نکلنے، خاندانوں کے بکھرنے، اپنا سب کچھ کھونے پر مغموم ہیں۔ ان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا تو یہ زندگی سے بیزار ہو سکتے ہیں ان کے ہاتھ محلات میں بیٹھے دنیا کی ہر نعمت سے سرفراز، حکمرانی کے نشے میں چور، مصائب سے دور لوگوں کے گریبانوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ دونوں صورتیں خوفناک اور تباہ کن ہیں، ہمیں بطور قوم متاثرین کی ڈھارس بندھانا ہو گی ان کو زندگی اور حیات کی روشنی لوٹانا ہو گی۔ ان کے اجڑے گھروں کو آباد کرنا ہو گا جہاں سے پانی اتر گیا ہے وہاں سے آلام کی سولی پر ٹنگے اپنے بھائیوں کو اتارنا ہو گا.... لیکن یہ کیا ہے؟ پاکستان کے دوسرے امیر ترین شخص جس کی دولت کے انبار گننے میں نہیں آ رہے۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں جس کے شہنشاہوں کے محلات کو مات کر دینے والے محلات ہیں اندرونِ بیرون ممالک کھربوں روپے کی جائیدادیں اور کاروبار ہیں۔ فرانس کا 20 سال پہلے خریدا ہوا محل اب دریافت ہوا ہے اس خدا کے بندے نے 25 لاکھ کا عطیہ دیا بعد میں اسے ڈبل کرتے ہوئے 50 لاکھ کر دیا ”بڑے بھائی“ نے ایک کروڑ دے کر حاتم طائی کی قبر کو لات مار دی۔ مشرف جو خود کو قوم کے لئے نوید سحر قرار دیتے ہیں بھی ایک کروڑ دان کر کے قوم پر احسان جتا رہے ہیں۔ پاکستان میں لوٹوں اور لٹیروں کی کمی نہیں۔ کیا یہ ڈاکے ڈالنا ہی جانتے ہیں ان کو انسانوں اور انسانیت کی کوئی پروا نہیں؟ شرم کی بات ہے ہمارے بڑے سیاستدان، حکمران موجودہ اور سابق فوجی و سول بیورو کریٹ دولت کے ڈھیر پر بیٹھ کر متاثرین کی امداد کے لئے غیروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ دنیا سے امداد کی اپیلیں کر رہے ہیں اپنی گرہ کھولیں تو کسی سے امداد لینے کی ضرورت نہیں رہے گی، نواز شریف نے درست کہا کہ حکومت بچت کرے 2 ارب پاﺅنڈ متاثرین کے لئے جمع کر سکتی ہے۔ لیکن ہماری سیاست کے ناخداوں کے سفینے بھی تنگ اور دل بھی تنگ ہیں ان کی دولت سازیاں اور ہوس افروزیاں اپنے ہم وطنوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیتیں۔ ان کے جسم دیسی اور روحیں بدیسی ہیں ان سے وطن کی عظمت کے گیت گانے کی توقع تھی لیکن ان کے گلے میں مفادات کی ہڈیاں پھنس گئی ہیں جس سے نغمہ تر کے بجائے اور لا اور لا کی غراہٹ سنائی دیتی ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ملک ہے تو سب کچھ ہے۔ ان کی عزت ہے عظمت ہے، سیاست ہے حکومت ہے۔ ملک ان کے دم قدم سے آباد ہے جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے اسے چلانے میں مدد دے رہے ہیں، خون پسینہ بہانے والے آج امداد کے منتظر ہیں ارب اور کھرب پتی یونہی دولت پر سانپ بن کر بیٹھے رہے تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ع
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
No comments:
Post a Comment