About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, August 21, 2010

HOPE- HELP


فضل حسین اعوان ـ 15 اگست ، 2010

 شوکت خانم میموریل ہسپتال جیسے اربوں روپے بجٹ کے ادارے لوگوں کی زکوٰة اور صدقات پر چل رہے ہیں۔ ان اداروں کے اخراجات میں ہر سال پچھلے سال کی نسبت کم از کم بھی 50 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ عمران خان بیک وقت سیاستدان اور سماجی رہنما ہیں۔ ان کی سیاست میں کسی کو کامیابی کا یقین ہو نہ ہوان کی دیانت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ البتہ ان کے سیاستدان ہونے کی بات کی جائے تو وہ پاکستانی روایتی سیاستدانوں سے منفرد ہیں۔ ہمارے سیاستدان قومی دولت ملک سے باہر لے جاتے ہیں۔ عمران خان باہر سے کما کہ پاکستان لائے۔ بہرحال عمران خان سیاست اور سماجی کاموں کو متوازی چلائے جا رہے ہیں۔ ان کے سماجی کام مضبوط اور مربوط‘ سیاست ڈانوا ڈول ہے۔ پاکستانی بھی ان کی سیاست اور سماجی خدمات کو الگ الگ سمجھتے اور اسی کے مطابق اہمیت دیتے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کی شاخیں آج پورے ملک میں پھیل چکی ہیں۔ اس سال ان کو خسارہ پورا کرنے کیلئے ایک ارب کی ضرورت ہے جبکہ 2 ارب روپے ہسپتال اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی 56 لیبارٹریز کی آمدن سے اکٹھے ہوں گے۔ گذشتہ شب شوکت خانم ہسپتال لاہور میں فنڈ ریزنگ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جس میں لوگوں نے دس کروڑ روپے کے عطیات جمع کرائے۔ اس تقریب میں بتایا گیا کہ ہسپتال میں 65 فیصد مریضوں کا علاج بالکل مفت 15 فیصد کا رعایتی اور صرف 20 فیصد سے پورے اخراجات وصول کئے جاتے ہیں۔ وہ کراچی میں بھی ہسپتال بنانا چاہتے ہیں لیکن وہاں شہر میں جگہ کا مسئلہ درپیش ہے۔ کراچی میں الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کا ہولڈ ہے۔ عمران خان اور متحدہ کا اٹ کھڑکا رہتا ہے۔ تاہم دونوں انسانوں اور نسانیت کےلئے اگر وہ جگہ کا اہتمام کر دے تو اس سے بڑی انسانیت کی خدمت کیا ہو گی۔ یقین رکھنا چاہئے کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اس حوالے سے اپنے قائد الطاف حسین سے مشورہ ضرور کرے گی اور جواب ہاں میں ہو گا۔
کینسر بڑا موذی مرض ہے۔ خدا اس مرض کو دنیا سے اٹھا لے عمران کے ہسپتال ڈائیگناسٹک اور ٹریٹ منٹ سنٹر ویران ہو جائیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ پھر عمران خان ان کو تعلیمی اداروں میں بدل دے گا۔ لیکن ان کے ہسپتال تو ہر سال پہلے سے بھی زیادہ آباد ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہسپتالوں میں توسیع اور ڈائیگناسٹک سنٹروں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے لامحالہ اخراجات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ جو پورے کرنے کیلئے مخیر حضرات کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ مخیر حضرات کوئی اور نہیں صرف پاکستانی ہیں۔
دولت کا کوئی بھروسا نہیں۔ سیلاب زدگان کو دیکھئے ارب پتی راتوں رات کنگال اور بے حال ہو گئے۔ ان میں سے لاکھوں صاحب حیثیت و صاحب استطاعت تھے شاید شوکت خانم ہسپتال جیسے اداروں کو لاکھوں روپے عطیات بھی دیتے ہوں آج خود زکوٰة کے مستحق ہیں۔ یہ وقت کسی پر بھی آسکتا ہے مجھ پر‘ آپ پر لاکھ پتیوں پر اربوں کھربوں کی جائیداد والوں پر آج کے وزیروں مشیروں گورنروں وزرائے اعلیٰ صدر اور وزیراعظم پر بھی۔ یہی سوچ کر اپنی دولت کا کچھ حصہ غریبوں کے علاج‘ ناداروں کی خوراک‘ بے بس والدین کی اولاد کی تعلیم اور سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے عطیہ کیجئے۔ شاید آپ کی امداد سے کسی کے جگر گوشے کی زندگی بچ جائے کسی غریب کی بیٹی کے ہاتھ پیلے ہو جائیں۔ کسی متاثرہ کے مکان دیواریں کھڑی ہو جائیں اور اس کے معصوم بچوں کو چھت کا سایہ میسر آجائے۔ 
آج ہم سیلاب کی صورت میں ایک بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں عمران خان نے متاثرین کی بحالی کیلئے وسیع پیمانے پر اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ پہلے جائزہ لیں گے پھر اپنے کارکنوں کو لے سیلاب زدہ علاقوں میں پھیل جائیں گے۔ ہم جس حیثیت میں بھی ہیں اپنے حصے کی شمع ضرور روشن کرنا چاہئے۔ اگر ہم متحد ہو کر متاثرین کا ہاتھ تھام لیں۔ انصار مدینہ اور تحریک پاکستان والا جذبہ پیدا کر لیں تو سیلاب کا پانی خشک ہونے سے پہلے متاثرین کی بحالی شروع اور پانی خشک ہونے کے ساتھ مکمل ہو سکتی ہے۔ ہم اپنے بھائیوں کو ان کی خوشیاں اس عید پر لوٹا سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment