فضل حسین اعوان ـ 14 جنوری ، 2009
سانحہ سقوط ڈھاکہ کے وقت میں شہر سے کہیں دور چھوٹے سے گائوں میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ گائوں کے بہت سے بزرگوں کی طرح اس کم عمری میں بھی رو دیا تھا۔ اسکی وجہ میرے والد کی تربیت تھی۔ وہ عموماً تحریک پاکستان اور قائداعظمؒ کے حوالے سے بتایا کرتے تھے۔ لاکھوں دیگر مسلمانوں کی طرح ان کو بھی اپنے خاندان سمیت جالندھر سے ہجرت کرکے پاکستان آنا پڑا تھا۔ جس طرح انہوں نے پاکستان بنتے دیکھا۔ سکھوں نے جو قتل و غارت کی اور لٹے پٹے قافلے جس طریقے سے پاکستان پہنچے اس کی منظر کشی کرتے ہوئے آج بھی انکی آواز رندھ جاتی اور آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کی اصل قدروقیمت کا ان کو اور ان جیسے لوگوں کو احساس ہے جنہوں نے آگ اور خون کے دریا پار کرکے پاکستان میں قدم رکھا۔ اسکے بعد میرے جیسی دوسری نسل کو جس کو والدین کی طرف سے ورثے اور تربیت میں احساس ملا‘ ہم تیسری نسل کو کہاں تک ڈلیور کر پائے‘ اس کا جواب انکے ذمے ہے۔
والد محترم کی عمر 88 سال ہے۔ ہمارے گھر کے تمام فیصلے وہی کرتے ہیں۔ میں نے سن رکھا تھا کہ بڑی عمر میں پہنچ کر انسان سٹھیا جاتا ہے مگر میں اپنے والد کی عقل و دانش اور معاملات سلجھانے کی صلاحیت دیکھ کر اس پر قطعاً یقین کرنے کو تیار نہیں تھا لیکن اب کچھ ایسے بابے سامنے آئے ہیں جنکے اعمال دیکھ کر میں سمجھتا ہوں کہ کچھ کی واقعی عمر گزرنے کیساتھ مت ماری جاتی ہے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اصل قدر دان تو وہ لوگ ہیں جو ہندو بنئے کی غلامی سے نکل کر آزاد ملک میں سانس لینے لگے۔ ہم لوگوں کو بزرگوں کی زبانی یا کتابوں کے ذریعے ہی علم ہوا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی معاملہ فہمی‘ سیاست اور دیانت پر آج تک کسی طرف سے انگلی نہیں اٹھی۔ پاکستان میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو پاکستان سے محبت اور اسکی خاطر سب کچھ قربان کرنے میں حضرت قائداعظمؒ کا ثانی ہو۔
زیارت میں سردی زیادہ پڑ رہی تھی۔ کرنل الٰہی بخش نے نئے موزے آپکی خدمت میں پیش کردئیے۔ دیکھے تو بہت پسند فرمائے‘ پوچھنے پر قیمت 2 روپے بتائی گئی۔ جواب دیا کرنل یہ تو بہت مہنگے ہیں۔ عرض کیا آپکے اکائونٹ سے خریدے گئے ہیں۔ فرمایا میرا اکائونٹ بھی تو قوم کی امانت ہے۔ ساتھ ہی موزے واپس کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم اس شخص نے دیا جس کی وصیت کی خبر بھارت کے مشہور انگریزی روزنامہ ’’سٹیٹس مین‘‘ نے 12 اکتوبر 1948ء کو شائع کی: ’’مسٹر جناح نے اپنے ذاتی اکائونٹ میں 40 لاکھ روپے چھوڑے جو مسلم لیگ اور دیگر اداروں کو منتقل ہو جائیں گے۔ پبلک فنڈ میں 84 لاکھ چھوڑے جو مسلم لیگ اور دیگر اداروں کو منتقل ہو جائیں گے۔ اسکے علاوہ بہت سی اراضی وہ اپنی زندگی میں تعلیمی اداروں کے نام کرگئے تھے‘‘۔
حضرت قائداعظمؒ کے کارناموں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ان پر میں نے اگر کبھی کوئی تنقید سنی تو زبانی کلامی‘ کہیں کسی مستند کتاب میں پڑھا نہیں ہے لیکن اب جب ایک بزعم خویش بہت بڑے صحافی کے قلم سے حضرت قائداعظمؒ کے بارے میں ہرزہ سرائی ہوئی تو میں سر تھام کے رہ گیا۔ جیسے جیسے ان کی تحریر نظر سے گزرتی گئی‘ دماغ مائوف ہوتا چلا گیا۔ شاید اس کی وجہ حضرت قائداعظمؒ کی ذات پر رقیق حملے ہوتے دیکھنے کی عادت نہ ہونا ہے۔
ارشاد حقانی صاحب فرماتے ہیں آج میں ایک اہم اور حساس موضوع پر قلم اٹھانے والا ہوں۔ جس موضوع پر انہوں نے قلم اٹھایا وہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کی خواہش کے مطابق جغرافیائی سرحدوں کی موجودگی کے باوجود ان کو عملی طور پر غیرمتعلق بنانا ہے۔ اس حوالے سے ان کو کبھی بے نظیر بھٹو کے اقوال کا حوالہ دینا پڑا اور کہیں میاں محمد نوازشریف کے حالیہ بیانات کو کوٹ کرنا پڑا جن میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزہ ختم کرنے کی بات کی تھی۔ 1947ء سے ٹوٹے ہوئے دل ملانے کیلئے وہ مصطفی صادق کی گواہی ڈال کر 1965-66ء سے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اسلحہ کی خریداری پر خرچ ہونیوالے پیسے بچانے کیلئے بھارت‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان فیڈریشن کے بھی حامی ہیں لیکن وہ اپنی بات کہنے کیلئے مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور ان کو وہ موقع اس وقت ہاتھ لگا جب بھارت پاکستان پر ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا بار بار الزام لگا کر یلغار کی دھمکیاں دے رہا ہے اور اس کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ جناب نے اس کو حساس موضوع بھی قرار دیا لیکن ان کی تان بالآخر جاکر قائداعظمؒ کی توہین پر ٹوٹی ہے۔ قائداعظمؒ قوم کے بڑے اور بزرگ ہیں۔ ان کو بابائے قوم بھی کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ قوم ان کو باپ کے درجے پر فائز کرچکی ہے۔ اس اولاد کو کیا نام دیا جائے جس کو چاہئے تھا کہ اپنے باپ کے اگر ہوں تو عیب چھپائے نہ کہ ان کی خوبیوں کو بھی خامیاں بناکر پیش کیا جائے۔ کیا کبھی کسی نے سگے باپ کے بارے میں ایسا رویہ اختیار کیا ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔ موصوف نے قائداعظمؒ کیخلاف زہرافشانی کیلئے مواد ڈھونڈنے پر نہ جانے کتنے دن غارت اور راتیں ضائع کردیں۔
پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش کو فیڈریشن میں پرو دینے‘ پاکستان بھارت تعلقات اور تجارت پر تجاویز دی اور سنی جا سکتی ہیں۔ قائداعظمؒ کے بارے میں کسی بھی طرف سے کی گئی توہین کوئی پاکستانی کیسے برداشت کرسکتا ہے۔ میں اپنے گھر میں محفوظ ہوں‘ مجھے مذہبی آزادی حاصل ہے‘ میرے بچے میری مرضی کیمطابق دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں تو اسکی وجہ قائداعظمؒ کا دلایا ہوا پاکستان ہے۔ کیا بھارت کے ہر مسلمان کو ایسی سہولتیں حاصل ہیں؟
محترم نے ایک اور قدم آگے بڑھایا۔ ان کو The sun shall rise کا حوالہ دینے کی اسکے علاوہ کیا ضرورت تھی کہ بانی پاکستان کی توہین کی جائے۔ ان کی اصل سوچ تک پہنچنے کیلئے قارئین کیلئے ارشاد احمد حقانی کے کالم میں The sun shall rise کا حوالہ ضروری ہے۔ ’’اسے لاہور کے ایک معروف اور قدیم پبلشر نے شائع کیا ہے۔ اسکے مصنف جناب عطاء ربانی ہیں جن کا ماضی ان کی حب الوطنی پر دلالت کرتا ہے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ رائل انڈین ائرفورس میں شامل ہوگئے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو انہیں یہ اعزاز نصیب ہوا کہ وہ قائداعظمؒ کے پہلے ائرایڈی کانگ مقرر کئے گئے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’…پاکستان بنتے ہی 15 اگست 1947ء کو ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت میں قائداعظمؒ نے تین غلطیاں کیں۔ ان کا ایک بیوروکریٹ ملک غلام محمد کو ملک کا پہلا وزیر خزانہ بنانا پہلی بڑی ’’غلطی‘‘ تھی۔ اس ’’غلطی‘‘ نے آنیوالے دنوں میں نوزائیدہ مملکت کو بے انتہا اور لاتعداد نقصانات پہنچائے۔ عطاء ربانی کا کہنا ہے کہ حضرت قائداعظمؒ‘ غلام محمد کی بجائے نوابزادہ لیاقت علی خان کو وزارت عظمیٰ کیساتھ وزارت خزانہ کا اضافی قلمدان بھی سونپ سکتے تھے کہ لیاقت علی خان کی امانت و دیانت اور پاکستان سے کمٹمنٹ اظہر من الشمس تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ملک غلام محمد کی بجائے قائداعظمؒ کسی ایسے سیاستدان کا بھی بطور وزیر خزانہ تقرر کرسکتے تھے جس میں فنانس کے معاملات کو سمجھنے کی اہلیت ہوتی اور جسے سر رولینڈز کی نگرانی میں مزید پالش کیا جاسکتا (سررولینڈز متحدہ ہندوستان میں وائسرائے کونسل کے آخری فنانس ممبر تھے اور قائداعظمؒ نے پاکستان کیلئے ان کی خدمات عاریتاً لے بھی رکھی تھیں) عطاء ربانی کے بقول ملک غلام محمد کو نوزائیدہ پاکستان کا وزیر خزانہ بنایا جانا اس لئے بھی غیرمناسب تھا کہ ایک تو انکے پاس خزانہ کے معاملات چلانے کا کوئی وسیع تجربہ اور علم نہیں تھا‘ سوائے اسکے کہ انہوں نے جنگ عظیم دوم کے دوران متحدہ ہندوستان کی حکومت میں سپلائی اینڈ پرچیز کے شعبے میں چند سال گزارے تھے اور دوسرا یہ کہ ملک غلام محمد حد سے زیادہ اقتدار کا حریص تھا۔ اپنی اوقات سے بڑھ کر عہدے کا متمنی رہنے والا‘ نہایت ضدی بیوروکریٹ اور منتقم مزاج بھی۔ اقتدار کیلئے اس کی حرص کا یہ نتیجہ نکلا کہ جلد ہی اس غیرمنتخب شخص نے اقتدار کے ایوانوں میں سازشوں کا جال بچھا دیا اور اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے اپنا راستہ ہموار کرنے لگا۔ یہ اسکی سازشوں ہی کا نتیجہ تھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں قائداعظمؒ کی رحلت کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی جگہ ملک غلام محمد بیٹھا تھا۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی بدقسمتی تھی۔ چونکہ وہ اپنے ساتھ کام کرنیوالوں کو سخت ناپسند تھا اس لئے ناپسندیدہ عناصر سے گلوخلاصی کروانے کیلئے ملک غلام محمد نے نہایت جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردئیے۔ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ میں اسکے خلاف بغاوت کے شعلے بلند ہونے لگے۔ نوزائیدہ پاکستان جسے قدم قدم پر جمہوری فیصلوں اور مشوروں کی ضرورت تھی‘ وہاں ملک غلام محمد کے فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے آمریت کی راہ ہموار ہونے لگی۔ عطاء ربانی صاحب کا کہنا ہے کہ ملک غلام محمد نے بلاواسطہ اور بالواسطہ حکومت سازی اور حکومت کے فیصلوں میں بیوروکریسی کو شامل کیا اور آج ہمیں سیاست میں جو آلودگی نظر آرہی ہے وہ ملک غلام محمد کے فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔ ملک غلام محمد ہی کی وجہ سے سول بیوروکریسی کے بعد ملٹری بیوروکریسی نے بھی پَر پُرزے نکالنا شروع کردئیے جس نے پاکستان کو دولخت بھی کیا اور تین بار ملک فوجی جرنیلوں کے قبضے میں بھی رہا۔
پاکستان آرمی کے پہلے سربراہ کو نافرمانی کی سزا نہ دینا‘ دوسری ’’غلطی‘‘ تھی۔ اکتوبر 1947ء کے اواخر میں ہمارے قبائلی سرینگر ائرپورٹ پر قبضہ کرنے کے قریب تھے۔ آس پاس کا علاقہ بھی انکے زیرقبضہ تھا۔ ایسے میں قائداعظمؒ نے لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس گریسی جنہیں عارضی طور پر پاکستان آرمی کی کمان دی گئی تھی‘ کو حکم دیا گیا کہ کشمیری مجاہدین اور قبائلیوں کی اعانت کیلئے ایک بریگیڈ فوج کشمیر بھیجی جائے لیکن جنرل گریسی نے قائداعظمؒ کے حکم کی تعمیل کے برعکس فیلڈ مارشل آکین لیک سے رابطہ کیا جو ان دنوں بھارتی افواج کے سربراہ تھے اور انہیں قائداعظمؒ کے فیصلے سے آگاہ کردیا۔
مصنف کا کہنا ہے کہ وقت اور حالات کا تقاضہ تھا کہ قائداعظمؒ فوری طور پر جنرل گریسی کو سزا دیتے ہوئے عہدے سے الگ کردیتے اور انکی جگہ پاکستانی فوج کے کسی سینئر افسر کا تقرر عمل میں آتا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ سرینگر ائرپورٹ بھی ہمارے قبائلیوں کی گرفت سے نکل گیا اور کشمیر کی مکمل فتح بھی ادھوری رہ گئی۔ اگر جنرل گریسی کو فوری سزا دی جاتی تو نہ بعد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تین ہلاکت خیز جنگیں ہوتیں اور نہ ہی سیاچن اور کارگل ایسی لڑائیوں کے سانحات رونما ہوتے۔ مصنف عطاء ربانی نے دعویٰ کیا ہے کہ نامعلوم وجوہ کی بناء پر نہ صرف جنرل گریسی کو سزا نہ دی جاسکی بلکہ قائداعظمؒ نے اسے لیفٹیننٹ جنرل سے ترقی دیکر فل جنرل بنا دیا اور پاکستان آرمی کے پہلے باقاعدہ سربراہ ہونے کا اعزاز بھی اسے بخش دیا۔ عطاء ربانی کے دعوے کے مطابق اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینا قائداعظمؒ کی تیسری ’’غلطی‘‘ تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت اردو بولتی تھی لیکن تقسیم ہند نے معاملات بدل دئیے۔ اب مشرقی پاکستان میں 54 فیصد پاکستانی رہتے تھے جو اردو بولنا‘ لکھنا اور پڑھنا کم کم جانتے تھے۔ ان کی زبان بنگالی تھی لیکن قائداعظمؒ نے مارچ 1948ء کو مشرقی پاکستان پہنچ کر اردو کے قومی زبان ہونے کا اعلان کردیا۔ اگرچہ قائداعظمؒ نے خلوص نیت اور یکجہتی کیلئے یہ اعلان کیا تھا لیکن بنگالی پاکستانیوں نے اس فیصلے کو اپنے کلچر‘ روایات اور اپنی زبان کیخلاف حملہ سمجھا۔ پھر ہنگامے شروع ہوگئے جس میں تین طلبہ بھی ہلاک ہوگئے۔ مصنف کے مطابق اس فیصلے نے پاکستان کے دونوں بازوئوں کے درمیان حائل 1200 میل کے آبی فاصلوں کو دل کی دوریوں میں بدل دیا۔
بہت سے لوگوں کو جناب عطاء ربانی کی رائے سے اختلاف ہوگا لیکن ان کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ (بقیہ سامنے والے صفحہ پر)
حقانی صاحب نے عطاء ربانی کی کتاب کا حوالہ دیا اور جو اقتباس نقل کیا وہ اس سے مکمل متفق ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کو اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ربانی صاحب بھی عمر کے اس حصے ہیں جس میں انسان کی مت بھی ماری جاسکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ ربانی صاحب کی خوش قسمتی ہے۔ اگر انہوں نے سب کچھ بقائمی ہوش و حواس لکھا ہے تو اس سے نہ صرف ان کی حب الوطنی اور پاکستانیت مشکوک ہے بلکہ ان کی انسانیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
قائداعظمؒ نے قیام پاکستان اور بعد ازاں پاکستان کیلئے جو کچھ کیا وہ صدق دل اور خلوص نیت سے کیا۔ کیا قائداعظمؒ کی ڈیڑھ سال کی زندگی میں جب وہ گورنر جنرل رہے‘ ملک غلام محمد کی کوئی ایسی حرکت سامنے آئی تھی جس پر ان کی گرفت کی جاسکتی؟ قائداعظمؒ کے بعد عنان حکومت لیاقت علی خان کے پاس آئی۔ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے۔ ملک غلام محمد تو لیاقت علی خانؒ کی وفات کے بعد وزیراعظم بنے۔ اگر قائداعظمؒ کی کابینہ میں وہ طاقتور تھے تو قائداعظمؒ کی وفات کے بعد وہ گورنر جنرل بنتے۔ The sun shall rise کے مصنف نے خود تسلیم کیا ہے کہ ’’ملک غلام محمد کے پاس خزانہ کے معاملات چلانے کا وسیع تجربہ نہیں تھا‘‘ یعنی تجربہ تو تھا لیکن وسیع نہیں تھا۔ قائداعظمؒ کے ایڈی کانگ کا یہ کہنا کہ لیاقت علی خانؒ کو وزارت عظمیٰ کے ساتھ وزارت خزانہ کا قلمدان بھی سونپ دینا چاہئے تھا‘ کیا نوزائیدہ مملکت کا وزیراعظم وزارت خزانہ کو بھی سنبھالنے کا متحمل ہوسکتا تھا؟ جب نیا ملک اور اس کا ہر ادارہ صفر سے آغاز کررہا تھا؟ پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے وفاقی وزیر کے ساتھ معاون وزیر بھی ہونا چاہئے تھا چہ جائیکہ وزارت خزانہ بھی وزیراعظم کے سپرد کردی جاتی۔ ملک غلام محمد کی خرافات اور کرتوتوں کی وجہ سے اگر معاملات بگڑے اور نوبت مارشل لائوں اور ملک ٹوٹنے تک جاپہنچی تو اس میں قائداعظمؒ کو قصوروار قرار دینا پاگل پن کے علاوہ کچھ نہیں۔
اردو زبان کیونکر پاکستان کی قومی زبان قرار دی گئی؟ اس کی وجہ اس کا پانچوں صوبوں میں سمجھا جانا ہوسکتا ہے۔ اگر ایک ہی زبان قرار دینا تھا تو اردو کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ یہ مغربی پاکستان کے کسی صوبے کی زبان بھی نہیں ہے۔ اگر قائداعظمؒ نے اسے قومی زبان قرار دیا تو بعد میں آنیوالوں کو کس نے روکا تھا کہ بنگالی کو بھی سرکاری زبان قرار دے دیتے۔
میں نے جنرل حمید گل صاحب سے فون کرکے جنرل گریسی کی پوزیشن اور اسکے بارے میں اٹھائے گئے عطاء ربانی کے سوالات کے ضمن میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ جنرل گریسی پاکستان اور بھارت کی افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل اکین لیک کی کمانڈ میں تھا اس لئے اس کے احکامات کا پابند بھی تھا۔
عطاء ربانی نے پاکستان کے دولخت ہونے تک کا ملبہ قائداعظمؒ کی غلطیوں کو قرار دے ڈالا۔ ایک احسان فرما گئے کہ 911 کے بعد افغانستان پر امریکہ کے قبضے اور قبائلی علاقوں میں اتحادی فوجوں کی بمباری کی ذمہ داری قائداعظمؒ پر نہیں ڈالی۔ غالباً ان کی کتاب قبائلی علاقوں میں حالات خراب ہونے سے پہلے شائع ہوچکی تھی۔ جہاں اتنا کچھ کہہ دیا وہیں نئے ایڈیشن میں اس کو بھی شامل فرما دیں تاکہ بھارت سے پیار کرنیوالوں کی تشفی ہوسکے۔
جناب ارشاد احمد حقانی صاحب کا شمار بلند پایہ صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ بغیر منتخب ہوئے تین ماہ تک وزیر اطلاعات بھی رہ چکے ہیں۔ وہ شروع میں جمعیت سے وابستہ تھے۔ وہ جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کی ادارتی ذمہ داریاں بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ 1951ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے اور پھر سیکرٹری اطلاعات بھی رہے۔ 1957ء میں خود جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کی۔ قائداعظمؒ پر ملک غلام حمد کو خزانہ بنانے کا الزام لگانے والے بتائیں کہ ایسی ہی غلطی کیا مولانا مودودی سے بھی ہوئی جنہوں نے موصوف کو جماعت اسلامی کے اہم عہدے پر تعینات کیا اور موقع ملتے ہی وہ جماعت کو چھوڑ گئے اور بالآخر چور دروازے سے وفاقی وزیر بھی بن گئے۔
موصوف نے قائداعظمؒ کی ذات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے مریم چودھری کے دو انگریزی اقتباسات کا حوالہ دیا ہے اور ان کا ترجمہ بھی نہیں کیا۔ ترجمہ نہ کرنے کی وجہ اندر کی پھٹکار ہے یا قارئین پر حسب صلاحیت قائداعظمؒ کی ذات کے بارے میں رائے قائم کرنے کی گنجائش۔ جب قوم کے باپ کی پگڑی اچھالنے کا عزم صمیم کرلیا تو پھر شرمانے کی کیا بات‘ ترجمہ بھی کردیتے۔ قائداعظمؒ کے سپوتوں تک یہ پہنچانے کیلئے کہ آج اولاد باپ کا کس قدر احترام کرتی ہے اور ان کے دماغ میں بابائے قوم کو سطحی قسم کا رہنماء ثابت کرنے کیلئے کیا خناس ہے‘ ہم ترجمہ کردیتے ہیں:
’’…جناح ایک ایسا معمہ ہے جو ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔ لوگ ان کے بارے میں انتہائی غیرمعمولی کہانیاں سنا سکتے ہیں اور پھر ان کے الہامی سچ ہونے کے بارے میں وہ قسمیں بھی کھا سکتے ہیں یا وہ انہیں اپنی مرضی کے آدمی کے طور پر بھی پیش کرسکتے ہیں۔ پھر محمد علی جناح کون تھے؟ کیا وہ ایسے اعلیٰ پائے کے سیاستدان تھے جو اپنے ہم مذہب لوگوں کے حق کی خاطر لڑے‘ کیا وہ ایسا شخص تھا جس نے محبت کی شادی کی اور اس کی بیٹی اس سرزمین میں گم ہوگئی جو اس کا اپنا وطن تھا لیکن پھر اس کیلئے غیرملک ہوگئی۔ کیا وہ ایک آزادی کے جذبے سے سرشار حریت پسند تھے یا خونی انتقام پر آمادہ ایک ولن‘‘
مریم چودھری مزید لکھتی ہیں:
’’…ارد شیر کائوس جی ایک ایسے کالم نگار تھے جو جناح سے تو مل چکے تھے لیکن وہ بمشکل گرفت میں آتے تھے۔ ان کے کسی ایسے شخص کے بارے میں نظریات معلومات کرنا جس کی شخصیت میں تلخی نہ ہو‘ مشکل تھا۔ مثال کے طور پر جب بھی جدید پاکستان کا موضوع پیش آیا تو مجھے کائوس جی کی تقریر کو بہت زیادہ ایڈٹ کرنا پڑتا کہ وہ سنسرشپ سے بچ سکے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ کاوس جی گستاخ قائد ہیں اور مدیر اعلیٰ نوائے وقت و دی نیشن نے انہیں برملا کہہ دیا تھا کہ آپ یہ فراموش نہیں کر سکے کہ قائداعظم نے ایک پارسی خاتون کو مسلمان کرکے شادی کی تھی۔ آپ ارزاہ کرم ہمارے اخبارات کیلئے نہ لکھا کریں۔
کالم نگار موصوف کی حضرت قائداعظمؒ پر تنقید کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ انہوں نے اگلی پچھلی تمام کسریں نکال دی ہیں۔ حرفِ تمنا کی طرح ان کے کالم کا ہر حرف گواہی دیتا ہے کہ وہ متحدہ ہندوستان کے زبردست حامی تھے البتہ ان کو اپنا خبث باطن ظاہر کرنے کا موقع اب ملا ہے۔ وہ قیام پاکستان پر معترض ہیں۔ ان کی عدم تقسیم ہند کی تمنا پوری نہ ہوسکی۔ اپنے کالم کی آخری قسط کا آغاز انہوں نے ان الفاظ سے کیا:
’’اب آئیے آگے چلیں۔
28 دسمبر کے کراچی کے ایک انگریزی معاصر میں وہی تبصرہ نگار جن کا میں پہلے حوالہ دے چکا ہوں لکھتے ہیں:
اس ترجمہ یہ ہے:
’’ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کی تخلیق کے لئے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا اس لئے اب ہمیں کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہئے جو ان کے دکھوں میں اضافے کا باعث ہو۔ یاد رہنا چاہئے کہ تقسیم ہند اس وقت ناگزیر ہوئی جب نہرو نے کابینہ مشن پلان کو اس وقت مسترد کر دیا جب مسلم لیگ اور کانگرس دونوں اسے تسلیم کر چکی تھیں۔ اس سے قائداعظم کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ بے وفائی کی گئی ہے۔ اب ان کے لئے اپنے انکار کے فیصلے سے واپس جانا ممکن نہ تھا باوجود اس کے کہ لارڈ مائونٹ بیٹن اور مولانا آزاد نے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ کابینہ مشن پلان کا استرداد ختم کر دیں۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ قائداعظم کابینہ مشن پلان مسترد کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم رہے حالانکہ اگر وہ مائونٹ بیٹن اور ابوالکلام آزاد کا مشورہ مان لیتے تو کابینہ مشن پلان شاید کسی شکل میں برقرار رہتا اور نہرو نے من مانی کرنے کی جو دھمکی دی تھی مائونٹ بیٹن اور مولانا آزاد کو یقین تھا کہ وہ اس میں نرمی پیدا کرا سکیں گے اور کچھ ردوبدل بھی ممکن ہو سکے گا۔ بہرکیف تقدیر کا لکھا پورا ہوا اور ہم 1947ء کے خون کے دریا سے گزر کر پاکستان آ گئے۔ اس ضمن میں بعض لوگوں نے کچھ مزید غلطیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو شاید خون کی اس ہولی کو روک سکتی تھیں۔ ہندوستان میں جب عبوری کابینہ بنی تو جناب لیاقت علی خاں کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان تھا۔ چودھری محمد علی ان کے مشیر تھے۔ اس زمانے میں سردار پٹیل نے اپنی وزارت میں ایک چپڑاسی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ازروئے ضابطہ اس نئی تقرری کا اجازت نامہ وزارت خزانہ نے دینا تھا۔ جب ان کے پاس درخواست پہنچی تو وزارت خزانہ نے جواب دیا کہ اس نئی پوسٹ کے لئے بجٹ میں کوئی تجویز نہیں ہے اس لئے اس تقرر کی منظوری نہیں دی جا سکتی اور سردار پٹیل بہت کھسیانے اور تلخ ہوئے۔ ان کی بات مان لی جاتی تو بے شک مسلمانوں کے اندر وزارت خزانہ کی واہ واہ نہ ہوتی لیکن عبوری کابینہ خوش اسلوبی سے چلنے کے امکانات اتنے زیادہ تاریک نہ ہوتے۔ اسی طرح جب لیاقت علی خان نے پہلا بجٹ پیش کیا تو اس میں انہوں نے ہندو سرمایہ داروں (مسلمان سرمایہ دار تو بہت کم تھے) پر بھاری ٹیکس لگائے جس سے پھر مسلمانوں میں واہ واہ ہوئی (مجھے آج تک مسلمانوں کے ردعمل کی تفصیل یاد ہے) لیکن ظاہر ہے کہ ان بجٹ تجاویز نے ہندو سرمایہ کاروں (اور باایں وجہ سیاستدانوں) میں بڑی تلخی پیدا کی اور یہ بھی ان عوامل میں سے ایک عامل بن گیا جس نے عبوری حکومت کے تجربے کو تلخ بنا دیا۔ اگر یہ تلخ تجربہ یا تجربات نہ ہوئے ہوتے تو کانگریسی قیادت کابینہ مشن پلان کی نامنظوری تک شاید نہ جاتی لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ آج کی پاک ہند قیادت کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے اور اب بھی کسی قسم کے دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ ہو جانا چاہئے۔ میں آج بھی جب کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر غور کرتا ہوں تو میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ ممتاز پاکستانی سکالر اور مورخ ڈاکٹر عائشہ جلال کی بھی یہی رائے ہے جو اسلام آباد سے لندن کے ایک سفر کے دوران اگست 2002ء میں انہوں نے میرے سامنے ظاہر کی۔ ہندوستان کے چوٹی کے صحافیوں نے اطمینان کا اظہار کیا تھا اور جناب ایم جے اکبر (ایک بھارتی صحافی) نے تو کہا تھا کہ آپ نے بہت دانائی کی باتیں کی ہیں۔ ممبئی کے حالیہ واقعے اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے خدشات کے بعد تو پاک ہند تعاون کی ضرورت مزید واضح ہو گئی ہے۔ کیا دونوں طرف کوئی سننے والا ہے؟
’’…جبکہ حقانی صاحب کا دل کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر دکھ سے بھرا ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ متحدہ ہندوستان کے حق میں تھے اور قیام پاکستان پر خوش نہیں ہیں۔
اگر یہ حقیقت ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ یہ ان کا حق ہے۔ البتہ میں موقع کی مناسبت سے چند مختصر گزارشات کرنے کی اجازت چاہتا ہوں… کچھ عرصہ قبل میں نے حقانی صاحب سے عرض کی تھی کہ آپ اپنے کالم میں تین بار محترمہ عائشہ جلال کی کتاب کو حرف آخر قرار دے چکے ہیں‘ کیونکہ وہ آپ کے نقطہ کے قریب ہے اور آپ کے بقول ہندوستانی صحافی گپتا نے بھی آپ سے یہی کہا تھا لیکن اصولی بات یہ ہے کہ تحقیق کے میدان میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا‘ حرف آخر صرف الہامی کتابیں ہوتی ہیں۔ دوم عائشہ نے یہ ڈاکٹریٹ کا تھیسس ہندو پروفیسر انیل کی سربراہی میں لکھا تھا اور وہ اپنے سپروائزر کی سوچ کے جبر کا شکار تھی ورنہ اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول میں دشواریاں پیش آتیں‘ چنانچہ اسی پس منظر میں آج سے چند برس قبل جب عائشہ کولمسز (LUMS) میں بطور مہمان مقرر بلایا گیا تو اسے طلبہ کے سامنے اپنی کتاب سے کچھ صفحات پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ عائشہ نے اپنی اسی کتاب ’’جناح‘ ہول سکوپس مین‘‘ سے ایک آدھ صفحہ پڑھا اور فوراً یہ اعلان کیا کہ اس کتاب کے چھپنے کے بعد اور مزید مطالعے اور غور و خوض کے نتیجے کے طور پر میرے نظریات میں تبدیلی آ چکی ہے جبکہ ہم اسے حرف آخر کا درجہ دے رہے تھے۔ حقانی صاحب گپتا اور عائشہ جلال کابینہ مشن پلان کو سودے بازی سمجھتے ہیں‘ کیونکہ وہ قائداعظم کے الفاظ کے پس پردہ محرکات تلاش کرتے ہیں جبکہ میں ایک سادہ لوح قسم کا طالب علم ہوں اور قائداعظم کے الفاظ پر مکمل بھروسہ کرتا ہوں۔
مجھے یقین ہے کہ قائداعظم سچے اور کھرے انسان تھے اور وہ وہی کہتے تھے جو ان کا مطلب ہوتا تھا‘ اس لئے میں ان کے الفاظ کو دوسرے معانی نہیں پہناتا۔ کابینہ مشن پلان قدرے تکنیکی معاملہ ہے اور میں نے کئی بار اس کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ کابینہ مشن پلان کو مسلم لیگ کے سامنے پیش کرتے ہوئے قائداعظم نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہمارا حتمی مقصد حصول پاکستان ہے اور قوم جس پٹڑی پر چڑھ چکی ہے اب یہ پاکستان حاصل کئے بغیر دم نہیں لے گی اور یہ کہ میں کابینہ مشن پلان کو حصول پاکستان کا ذریعہ ہی سمجھتا ہوں۔ کابینہ مشن پلان کی منظوری کے حوالے سے تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا
تفصیل میں گئے بغیر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کو یقین تھا کہ یہ سکیم ناقابل عمل ہے۔ قائداعظم اور نہرو دونوں نے اسے (Unwork able) کہا۔ قائداعظم چاہتے تھے کہ تھوڑا عرصہ انتظار کر لیں۔ اس سکیم کے ذریعے پنجاب اور بنگال تقسیم ہونے سے بچ جائیں گے اور پاکستان بھی معرض وجود میں آ جائے گا۔ خود مسلم لیگ کونسل نے بھی کابینہ مشن پلان کو قبول کرتے ہوئے جو قرارداد پاس کی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ وہ اس سکیم کو اس یقین کے ساتھ قبول کر رہے ہیں کہ یہ سکیم بالآخر پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کرے گی۔ براہ کرم قائداعظم کی پانچ اور چھ جون 1946ء کی تقاریر پڑھیں اور مسلم لیگ کی قرارداد کو بغور پڑھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے۔ محترم حقانی صاحب نے لکھا ہے کہ اگر وہ (قائداعظم) مائونٹ بیٹن اور ابوالکلام کا مشورہ مان لیتے تو کابینہ مشن پلان کسی شکل میں برقرار رہتا۔ ان کی حسرت اپنی جگہ لیکن مائونٹ بیٹن تو وائسرائے بن کر ہی مارچ 1946ء میں آیا تھا‘ جب کہ کابینہ پلان مئی 1946ء میں پیش کیا گیا اور جون میں قبول کرنے کے بعد مسترد کر دیا۔ مائونٹ بیٹن کی آمد تک سیاسی پلوں کے نیچے سے بے شمار پانی بہہ چکا تھا اور حالات یکسر بدل چکے تھے۔ بہرحال میں یہ سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کابینہ مشن پلان کو بھی حصول پاکستان کا ذریعہ سمجھ کر قبول کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ آپ کو حق ہے کہ آپ اسے پاکستان کے مطالبے سے دستبرداری سمجھ لیں۔‘‘
حقانی صاحب کے کالم کی تان بالآخر لاہور میں سائوتھ ایشیائی صحافیوں کی کانفرنس میں کی گئی اپنی تقریر پر ٹوٹی جس میں انہوں نے فرمایا تھا۔ ’’ماضی میں ہم دونوں سے جو بھی غلطیاں ہوئیں اب تاریخ کی قوتیں ہمیں دھکیل رہی ہیں کہ ہم ہوش مندی اور تعاون باہمی کا راستہ اختیار کریں میرے اس تبصرے پر پاکستان اور ہندوستان کے چوٹی کے صحافیوں نے اطمینان کا اظہار کیا تھا اور ایم جے اکبر نے تو کہا تھا کہ آپ نے بہت دانائی کی باتیں کی ہیں‘ ممبئی کے حالیہ واقعے اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے خدشات کے بعد تو پاک ہند تعاون کی ضرورت مزید واضح ہو گئی‘‘۔ حقانی صاحب کی اس رائے سے نہ صرف دونوں ملکوں کے مخصوص چوٹی کے صحافی متفق ہیں بلکہ پاکستان بھارت تعلقات کیلئے بے چین ٹولے کے سامنے مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی دستبرداری کی بات کی جائے تو وہ اس کے حق میں بڑی دور کی کوڑی لائیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارت ہمارا پڑوسی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کے ساتھ بہترین تعلقات قائم ہونے چاہئیں۔ تعلقات کیوں قائم نہیں ہو سکتے؟ مختصر سا جواب مسئلہ کشمیر ہے۔ حقانی صاحب نے آج کشمیر کا جو حصہ آزاد ہے اس کا کریڈٹ قائداعظم کی فہم و فراست کو دینے کے بجائے مقبوضہ وادی کے بھارت کے زیر قبضہ رہنے کو قائداعظم کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ کشمیر کے قضیے کا آخر کوئی تو حل نکلنا چاہئے اور بہترین حل وہی ہے جو حضرت قائداعظم نے جنرل گریسی کو لاہور کے گورنر ہائوس میں حکم کے ذریعے دیا تھا کہ کشمیر میں پاکستان کی فوج داخل کرو اور اس نے حکم عدولی کرتے ہوئے اپنے جنرل فیلڈ مارشل آکین لیک سے پوچھنے کا کہا تھا جس نے بھارت میں مقیم ہونے کی وجہ سے ایسا آرڈر دینے سے انکار کر دیا تھا یا جو اقوام متحدہ نے بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں اٹھانے کے بعد بتایا تھا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ اب اس مسئلے کو ایک طرف رکھ کر بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے جائیں کہاں کی دانشمندی ہے۔ وادی کشمیر 7 لاکھ بھارتی فوجیوں کی یلغار کی وجہ سے جل رہی ہے۔ وہاں ہر روز حریت پسندوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ بھارتی درندے بلا امتیاز بچوں اور خواتین کے ظلم جاری رکھے ہوئے ہیں کیا ان کو اسی حال میں چھوڑ دیا جائے۔
اگر مسئلہ کشمیر وہاں کے مکینوں کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل بھی ہو جائے تو بھی بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کا امکان نہیں۔ بھارت اپنے ہر پڑوسی ملک کو مطیع رکھنا چاہتا ہے کیا پاکستان اس کا مطیع بن جائیگا؟ بنگلہ دیش کے ساتھ تو بھارت کا کشمیر جیسا کوئی تنازعہ نہیں۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بھارت آگے آگے تھا کیا بنگلہ دیش کے ساتھ اس کے مثالی تعلقات ہیں؟
صرف موصوف ہی نہیں خرِ زمان اور رسوائے عالم ایک ٹولہ موجود ہے جو بھارت کے ساتھ ہر صورت پیار کی پینگیں بڑھانے پر مُصر ہے۔ کیا ان دانشوروں نے کبھی بھارت کو بھی مشورہ دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت بند کرے‘ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دے۔ نوازشریف اور آصف علی زرداری کی بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش ہے۔ نوازشریف صاحب تو ویزہ ختم کرنے کی بھی بات کر چکے ہیں۔ آصف زرداری دونوں ممالک کو مشترکہ اقتصادی طاقت بنانے کے بیانات دے چکے ہیں۔ لیکن ان کی خواہشات کے راستے میں کارگل اور سانحہ ممبئی حائل ہو جاتے ہیں۔ ایسے سانحات سے بچنے‘ پاکستان بھارت دوستانہ نہیں غیر مخاصمانہ تعلقات کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا اور آج اس شہہ رگ پر بھارت نے پانی بند کر کے باقاعدہ انگوٹھا رکھ دیا ہے۔ یہ انگوٹھا عاجزی اور منت سماجت سے نہیں اٹھے گا۔ بھارت ہمیں ایک بار پھر تقسیم کرنا چاہتا ہے یا بھارت حصہ بنا کر بھارت کو نیا بھارت بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ قوم آج بھی قائداعظم کے احترام میں متفق ہے۔ جن کو قائداعظمؒ میں خامیاں نظر آتی ہیں وہ بھارت کی آشیرباد سے متحد ہو رہے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ پاکستان بھارت تعلقات کیلئے اپنا کردار ضرور ادا کریں‘ اس کے لئے بہترین طریقہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ کرنا ہے وہ اس کے لئے جدوجہد کریں۔ خدارا قائداعظمؒ کی ذات کو متنازعہ بنانے کی کوشش نہ کریں ہم آج جو کچھ ہیں قائداعظمؒ اور ان کے آزاد ملک کی بدولت ہیں۔ اگر قائداعظمؒ پاکستان نہ دلاتے اقبال نظریہ نہ دیتے‘ انہیں لندن سے واپس نہ بلواتے تو کیا معلوم کہ آج کے چوٹی کے صحافی‘ جرنیل‘ جج اور دیگر بڑے لوگ عرضی نویس بھی نہ ہوتے۔
No comments:
Post a Comment