About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, August 21, 2010

پھر یہ جاوید کون ہے؟


فضل حسین اعوان ـ 12 اگست ، 2010

 یہ دسمبر 1999ءکی ایک سرد شام تھی۔ کسی کی زندگی کی شام کسی کیلئے شب ظلمات کا آغاز لیکن یہ شام مسجد میں داخل ہونے والے بے چین اور پریشان حال اجنبی کیلئے نوید سحر تھی۔ ملتان روڈ پر مانگا منڈی اور پھول نگر کے درمیان چھوٹی سی بستی چاہ کلالاں والا مین روڈ پر واقع ہے۔ مغرب کی نماز سے فارغ ہوئے تو اجنبی کئی بار مسجد سے باہر گیا اور اندر آیا۔ نمازیوں نے اس کی بے چینی کو محسوس کیا۔ آج کے دہشت گردی کے حالات میں ایسا ہوا ہوتا تو اسے بلاتحقیق پولیس کے حوالے کر دیا جاتا۔ نمازیوں نے اسے احترام کے ساتھ اپنے درمیان بٹھا کر اس سے اس کی اضطراری کیفیت کے بارے میں پوچھا۔ امام مسجد بھی اس حلقے میں موجود تھا۔ اجنبی نے چند الفاظ میں اپنا مدعا بیان کیا ”میں بہت گناہ گار ہوں۔ میں بڑا ظالم ہوں۔ میرے گناہوں اور مظالم کا کوئی شمار نہیں۔ میں توبہ کرنا چاہتا ہوں۔ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ خدا مجھے معاف کر سکتا ہے“؟ یہ سن کر نمازیوں کی اس کے ساتھ ہمدردی اور اپنائیت سی ہو گئی۔ مولوی صاحب نے کہا ”مایوسی گناہ ہے اگر تم صدق دل سے توبہ کر رہے ہو خدا ہر چیز پر قادر ہے تمہارے جتنے بھی گناہ ہیں معاف کر سکتا ہے۔“ اس کے بعد اجنبی نے قرآن پاک اٹھایا اور ایک رکوع کی تلاوت کی۔ وہاں موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی قرآت کمال کی تھی۔ ایسی خوش الہانی سے تلاوت انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ مولوی صاحب نے اس کےلئے خیر کی دعا کرائی۔ مغرب سے عشاءتک یہ لوگ مسجد میں بیٹھے رہے۔ عشاءکے بعد اجنبی نے پوچھا کہ وہ رات مسجد میں ہی گزارنا چاہتا ہے۔ مسجد کی انتظامیہ نے بتایا کہ مسجد کے ساتھ ایک کمرہ موجود تھا جو گرا کر دوبارہ بنایا جا رہا ہے اس لئے یہاں شب بسری ممکن نہیں۔ تھوڑی دیر بعد اجنبی نے پوچھا آپ لوگ اپنے گھروں کو کیوں نہیں جاتے؟ بتایا گیا کہ ساتھ والے گاوں میں میلاد ہے گاڑی آرہی ہے ہم وہاں جائیں گے۔ اجنبی نے بھی ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ رات بسر ہو جائے۔ نمازیوں نے اجنبی کی خواہش پر خوش آمدید کہا۔ اس کے بعد یہ خدا کا بندہ اٹھا مسجد سے باہر گیا اور واپس نہ آیا۔ نمازی میلاد پر جانے کیلئے باہر نکلے تو سڑک پر ایک آدمی کو لیٹے ہوئے پایا۔ یہ وہی اجنبی تھا۔ ہلاجلا کر دیکھا تو روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ پولیس آئی جس نے موت کو حادثے کی وجہ قرار دیا عینی شاہدین کے مطابق اس کے جسم پر زخم یا چوٹ کا ایک بھی نشان نہیں تھا۔ اس چہرے پر مغرب کے بعد جو اضطراب اور پریشانی تھی اب اس پر ایک اطمینان تھا۔ اسے نہلا کر دفن کرنے کا اہتمام ہو رہا تھا کہ نہلانے والے نے بتایا کہ اس کے بازو پر ”جاوید“ کندہ ہے۔ علاقے میں اعلان کر دیا گیا۔ ساتھ والے گاوں سے کچھ لوگ آئے ان کا بیٹا نشئی قسم تھا وہ کئی کئی روز گھر سے غائب رہتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کا جاوید ہے۔ وہ میت گھر لے گئے تاہم اس کی بیوی نے کہا کہ یہ اس کا خاوند نہیں ہے۔ باقی سب گھر والے اسے اپنا جاوید قرار دیتے رہے اور دفنا دیا۔ اگلے دن قل ہو رہے تھے کہ نشئی جاوید بھی جھومتا ہوا گھر واپس آگیا اور اپنے قلوں میں شامل ہوا۔ یہ جہاں گھر والوں کےلئے ایک خوشی کا موقع تھا وہیں عام آدمی کیلئے سوالیہ نشان کہ قبر میں پڑا جاوید کون ہے؟ ان دنوں سو بچوں کے قاتل جاوید مغل کا معاملہ میڈیا میں چل رہا تھا۔ اس نے ابھی گرفتاری نہیں دی تھی۔ پولیس سے پوچھا گیا کہ تصاویر دکھائے۔ پولیس کا موقف تھا کہ جب وارث مل گئے تو تصاویر لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم لاش لاوارث ہونے کی صورت میں تصویریں اتارتے ہیں۔ تین دن بعد قبر کشائی کی گئی۔ میت صحیح سلامت تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ خدا نے واقعی اسے معاف کر دیا ہے۔ جاوید اقبال مغل کے رشتہ داروں کو بلایا گیا۔ انہوں نے پہلی نظر دیکھتے ہی کہہ دیا کہ یہ ان کا جاوید نہیں ہے۔ پولیس نے تصویریں لیں اور اسے پھر سپرد خاک کر دیا۔اجنبی جاوید جس سرد شام کو مسجد میں داخل ہوا اندر سے گیلی لکڑی کی طرح سلگتا محسوس ہو رہا تھا۔ مرا تو چہرے پر طمانیت تھی۔ تین دن بعد قبر سے لاش نکالی گئی تو بقول عینی شاہدین چہرے پر اطمینان بدستور جھلک رہا تھا اور نعش بھی بالکل سلامت تھی۔ وہ لاوارث تھا‘ خدائی قدرت کہ ایک خاندان کی وراثت میں وہ سپرد خاک ہوا۔ خدا اپنے بندوں کو معاف کرنے پر قادر ہے لیکن بندے ذاتی مفادات کی خاطر دوسرے بے قصور بندوں کو راندہ درگاہ قرار دلانے میں کوئی جھجک‘ شرم اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ خدا کی پکڑ سخت اور یقینی ہے۔ تاہم توبہ کے دروازے کبھی بند نہیں ہوئے۔
جاوید کے حوالے سے آج بھی بہت بڑا سوال سامنے ہے کہ پھولنگر کا جاوید گھر واپس آگیا۔ سو بچوں کا قاتل جاوید اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ پھر چاہ کلالاں والا کی مسجد میں گناہ قبول کرنے اور آج قبر میں پڑا جاوید کون ہے۔ آج کے کالم کا مقصد یہی ہے کہ یہ جاوید جس کے بازو پر اس کا نام کندہ ہے کون ہے؟ اور جن کا ہے وہ چاہ کلالاں والہ کی مسجد میں امام صاحب سے مل لیں۔

No comments:

Post a Comment