”لانگ مارچ کرنے کو دل کرتا ہے“
فضل حسین اعوان ـ 8 اگست ، 2010
پاکستان میں سیاست عجب کھیل ہے۔ جب کوئی قلابازی لگانی ہو، بے اصولی کے لئے دل مچلے تو بڑے بڑے سیاستدان کہتے سنے جاتے ہیں ”سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی“ اصول قانون آئین قواعد و ضوابط بھی قوم کے رہبروں اور رہنماﺅں کے لئے حرف آخر نہیں ہیں۔ عہد، وعدے معاہدے قسمیں رسمیں حالات کے ساتھ اپنے مفادات کے مطابق ان پر عمل پیرا رہنے یا ان سے روگردانی کا تعین کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بے شمار سیاسی اتحاد بنے اور ٹوٹے۔ سیاسی اختلافات دشمنی میں ڈھلتے دیکھے گئے۔ سیاسی دشمنیاں دوستی میں بدلتی رہتی ہیں۔ ایک دوسرے کو اعتماد کے نام پر دھوکے اور فریب کو بھی سیاست کا نام دیا جاتا ہے۔ کبھی آگے بڑھنے کے لئے سیاستدان آمروں کو باپ اور ڈیڈی کہتے رہے کبھی اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بھائی بہن اور بھائی بھائی بن گئے۔ آصف علی زرداری صاحب نے بڑے بھائی کی تیسری بار وزیراعظم بننے کی خواہش کو بھانپ کر ان کے ”انتظام“ کا اہتمام کیا قائد مسلم لیگ میاں صاحب بھی ایسے بلیک میل ہوئے کہ باچا خان کی روح کو صوبہ سرحد کا نام خیبر پی کے رکھ کر شانتی پہنچائی اور اقبال و قائد کی روحوں کو تڑپا کر رکھ دیا۔ 18ویں ترمیم منظور ہوئی میاں صاحب کو تیسری بار وزیراعظم بننے کا حق مل گیا۔ بھاری قیمت ادا کرکے۔ فرینڈلی اپوزیشن کا سحر اب ٹوٹ رہا ہے شاید پوری طرح ٹوٹنے تک پیپلز پارٹی مرکز میں اپنی آئینی مدت پوری کر لے پنجاب حکومت کی آئینی مدت کی قسمت بھی مرکز کی آئینی مدت کے ساتھ منسلک ہے۔ نواز شریف صاحب فرماتے ہیں ”صدر زرداری جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں صدر کے روئیے کے خلاف لانگ مارچ کرنے کو دل کرتا ہے“ گویا ابھی ایسا کچھ کرنے کا ارادہ نہیں کیا عزم نہیں باندھا محض دل کرتا ہے۔ جیسے پائے کھانے کے بعد لسی پینے کو دل کرتا ہے۔پاکستان میں لانگ مارچوں کی تاریخ زیادہ طویل نہیں ہے۔ پہلا لانگ مارچ محترمہ بے نظیر نے کیا۔ 1993ءمیں وزیراعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کے خلاف کیا بے نظیر بھٹو کے لانگ مارچ کو حکومت نے دبا دیا۔ محترمہ نے نواز شریف کے خلاف اسی سال دوسرے لانگ مارچ کی تیاری کی اس کی نوبت نہیں آئی فوج ان کو لانگ مارچ کی قیادت کرنے سے قبل ہیلی کاپٹر پر جی ایچ کیو لے گئی۔ تیسرے لانگ مارچ کا اہتمام بھی محترمہ بینظیر بھٹو نے 2007ءمیں کیا یہ صدر جنرل پرویز کی نافذ کردہ ایمرجنسی کے خلاف اور ججوں کی قید کے نام پر تھا۔ بے دلی سے کئے گئے اس لانگ مارچ کا اختتام بے نتیجہ رہا۔ ایک لانگ مارچ کراچی سے اسلام آباد تک اعتزاز احسن کی قیادت میں 2008ءکو ہوا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وکلا قیادت نے یہ لانگ مارچ ”فیس“ کی نذر کر دیا۔ ایک لانگ مارچ 16 مارچ 2009ءکو ہوا۔ یہ بھی وکلا کا لانگ مارچ تھا جس کی قیادت میاں نواز شریف نے کی۔ لاہور سے چلے قافلے گوجرانوالہ پہنچے تھے کہ ججوں کی بحالی کا مطالبہ منظور کر لیا گیا۔ اس کے بعد سے یار لوگوں نے ہر مسئلے کا حل لانگ مارچ کو قرار دیا ہوا ہے۔
نواز شریف کا صدر کے خلاف لانگ مارچ کرنے کو دل کرتا ہے لیاقت بلوچ نے گذشتہ روز کہہ دیا کراچی کے امن کے لئے لانگ مارچ کرنا پڑا تو کریں گے۔ شادی پر سالن کم پڑتا دیکھ کر سیانے نے کہا دیگوں میں پانی ڈال دو، کھیر کم پڑتی معلوم ہوئی تو کہا چمچ اٹھا لو۔ فروٹ والا گلی میں آوازیں لگاتا منع کرنے پر بھی باز نہ آیا تو گلی کے ہتھ چھٹ نے فروٹ چھین کر ریڑھی الٹا دی۔ ساتھ والی گلی کا سر پھرا کوڑا لے جانے والے کی آوازوں سے تنگ تھا۔ ہتھ چھٹ کے عمل سے انسپائر ہو کر کوڑے والے کے شور مچانے پر اس سے کوڑا چھین لیا۔ اسپرین سے سر درد کو آرام آ گیا تو اس سے کینسر اور ٹی بی کا علاج بھی شروع کر دیا جائے؟ واک بہت سی بیماریوں کا علاج ہے۔ یرقان کے مریض کے لئے چند قدم چلنا بھی جان لیوا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر مسئلہ لانگ مارچ سے حل نہیں ہو سکتانواز شریف صاحب لانگ مارچ کے خواب دیکھنا چھوڑیں جس طرح فرینڈلی اپوزیشن کو خیرباد کہا تھا اصول کی سیاست کریں۔ ملک بحرانوں اور مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اس کو بحرانوں اور مسائل سے نکالنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ دکانداری نہ کریں قائداعظم کی سی سیاست کریں۔ ان کا وارث اور جاں نشیں بن کر دکھائیں۔ آپ قائداعظم کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ اس پر بیٹھنے کا خود کو اہل ثابت کریں۔ آپ بڑی مسلم لیگ کے قائد ہیں۔ بکھری ہوئی مسلم لیگوں کو اکٹھا کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ جنرل مشرف کے سیاسی سپاہیوں نے تو یہ کام شروع کر دیا ہے اور دعویٰ کہ پیر پگاڑہ شریف صاحب کو رام کر لیا ہے جو مشکل کام ہے۔ اصولی سیاست سے نظریں نہ چرائیں۔ آپ کے اصل کردار ادا کرنے کی جگہ پارلیمنٹ ہے۔ الیکشن لڑیں۔ جیت کر پارلیمنٹ میں جائیں۔ بپھرا ہوا بھینسا درخت پر چڑھ کر شور مچانے سے نہیں قابو آتا اس کو نتھ ڈالنے کے لئے حکمت ہمت اور جرات سے کام لینا پڑتا ہے۔
No comments:
Post a Comment