دوسری جنگ عظیم ۔ اگر جاپان کے پاس بھی ایٹم بم ہوتا ۔۔۔
فضل حسین اعوان ـ 9 اگست ، 2010
جنگ عظیم دوم میں جاپان کے ساتھی ممالک جرمنی اور اٹلی مسلسل شکست سے دوچار ہو رہے تھے۔ مئی 1945ءمیں جرمنی اور اٹلی نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ جاپان ڈٹا رہا۔ 8 مئی 1945ءکو اتحادیوں نے اپنی فتح کا اعلان کر دیا۔ 26 جولائی 1945ءکو اتحادیوں نے پوسٹ ڈیم اعلامیہ جاری کیا جس میں جاپان کو ہتھیار ڈالنے کےلئے کہا گیا۔ جاپانی وزیراعظم کانتارو سوزوکی اور شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے ہر قیمت پر اپنے وطن کے دفاع کا عزم ظاہر کیا۔ جاپانی فوج کے جرنیل آخری دم تک لڑنے اور مرنے کےلئے اپنے وزیراعظم اور بادشاہ سے بھی زیادہ پَُرعزم تھے۔ گو اتحادیوں نے جاپان کی بحری ناکہ بندی کر لی تھی لیکن فوج کسی صورت بھی شکست تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی۔ امریکہ نے جاپان کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کےلئے 6 اگست 1945ءکو اڑھائی لاکھ سے زائد آبادی کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرا دیا جس سے انسانیت اور انسانوں کے پرخچے اڑ گئے۔ اس تباہی کے باوجود بھی جاپان ہتھیار پھینکنے پر تیار نہ ہوا۔ امریکہ نے ایک اور بم چلانے کی دھمکی دی جس کا جاپانی حکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ اعلیٰ فوجی حلقوں نے یقین ظاہر کیا کہ امریکہ کے پاس ایک ہی ایٹم بم تھا جو اس نے ہیروشیما پر گرا دیا ہے۔ جاپانی ماہرین کے یہ اندازے اس وقت غلط ثابت ہو گئے جب آج کے دن 9 اگست 1945ءکو میجر چارلس ڈبلیو سوینی نے بھی تینیان کے ہَوائی اڈے سے اڑان بھری اور 11 بج کر ایک منٹ پر ناگاساکی پر قیامت برپا کر دی۔ ہیروشیما میں 2 لاکھ اور ناگاساکی میں 70 ہزار انسان مارے گئے تھے۔ جاپانی فوج کا اس کے باوجود حوصلہ نہ ٹوٹا لیکن بادشاہ اپنے عوام کی مزید ہلاکتوں پر تیار نہیں تھا۔ جنرل انامی کورے چیکا جاپان کا وزیر جنگ تھا جس نے امریکہ کے سامنے سرینڈر کی بھرپور مخالفت کی۔ امریکہ نے جاپان کو ایک اور ایٹم بم چلانے کی دھمکی دے رکھی تھی، بادشاہ نے جرنیلوں کی جنگ جاری رکھنے کی تجویر سے اتفاق نہ کیا اور اپنے طور پر جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ جنرل کورے چیکا کو اس کے ہم خیالوں نے جنگ کے خلاف ووٹ دینے یا مستعفی ہونے کا مشورہ دیا، اس سے انامی کورے چیکا نے اتفاق نہ کیا۔ اس نے اپنے کزن سے اس موقع پر کہا ”ایک جاپانی سپاہی ہونے کے ناطے شہنشاہ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے“ ۔۔۔ 14 اگست 1945ءکو انامی کورے چیکا نے کابینہ کے اجلاس میں سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ ایسا موقع جنرل نیازی پر بھی آیا لیکن جو کچھ اس کے بعد انامی نے کیا نیازی وہ نہ کر سکا۔ سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے اگلے روز جنرل انامی نے خودکشی کر لی۔ جاپانی روایات کے مطابق اسے باوقار خودکشی کا نام دیا جاتا ہے۔ جنرل انامی کورے چیکا نے اپنے لئے باوقار موت کا انتخاب کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اس کا انجام بھی جنرل تومو یوکی یاما شیتا سے مختلف نہ ہوتا۔ یاما شیتا پر فلپائن میں جاپانی فوج کے مظالم کے خلاف امریکہ نے مقدمہ چلایا۔ اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ یاما شیتا نے امریکی صدر ہیری ٹرومین سے معافی کی اپیل کی کہ جو مسترد کر دی گئی۔ بالآخر اسے 23 فروری 1946ءکو منیلا میں پھانسی دیدی گئی۔ جاپانی فوج نے بڑی بے جگری سے اتحادیوں کا مقابلہ کیا۔ وہ بدستور لڑنا چاہتی تھی لیکن بادشاہ کو ادراک تھا کہ امریکہ ایٹم بموں سے شہر کے شہر برباد کر دے گا اس لئے شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے اپنی رعایا کو بچانے کی خاطر سرنڈر قبول کر لیا۔ جنگ عظیم دوم کا اختتام 74 لاکھ جاپانی فوج کے ہتھیار پھینکنے پر ہوا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جاپان کے پاس بھی ایٹم بم ہوتا تو کیا جاپان جیسی بہادر افواج اور شہنشاہ ہیرو ہیٹو جیسا غیرت مند بادشاہ سرنڈر قبول کر لیتا؟ ۔۔۔ اس کا جواب ہے ۔۔۔ کبھی نہیں؟ جاپان شاید امریکی چڑھائی کی نوبت ہی نہ آنے دیتا، اگر نوبت آ بھی جاتی تو امریکہ کے ایک ایٹم بم کے جواب میں تین چلا دیتا۔ جاپانی فوج کا سرنڈر دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا سرنڈر اور بدترین شکست ہے جس کی ہزیمت کا داغ بدستور جاپانیوں کے ماتھے پر لگا ہوا ہے۔ آج پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور اپنے دشمن سے محفوظ بھی اسی بنا پر ہے۔ لیکن ایٹم بم چلانے کےلئے بھی حوصلے کی ضرورت ہے۔ کیا گزشتہ اور موجودہ حکمرانوں میں ایسی جرات موجود تھی یا ہے۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو آج کشمیر آزاد اور پاکستان کے حصے کا پانی بھی واگزار ہو چکا ہوتا۔ اگر جواب نہیں میں ہے تو ووٹر اگلے الیکشن میں حکمرانوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں۔
No comments:
Post a Comment