فضل حسین اعوان ـ 17 اگست ، 2010
یہودی اسرائیل کے ہوں، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا یا دوسرے ممالک اور خطے کے۔ ان کی سوچ ایک۔ ان کے مفادات یکساں۔ ان کے دوست مشترکہ اور دشمن بھی۔ یہ سود خور قوم پوری دنیا میں اپنا سکہ جمانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں یہودی ملٹی نیشنل کمپنیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ گو ان کمپنیوں میں یہودی کام نہیں کرتے۔ یہ کمپنیاں مقامی لوگ چلاتے ہیں لیکن ان کی آمدن کا ایک مخصوص حصہ مسلمانوں سے برسرپیکار اسرائیل کو جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے جہاں پاکستان میں یہودیوں کی کمپنیوں کا براہِ راست عمل دخل بڑھ رہا ہے وہیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا خبط بھی پایا جاتا ہے۔
چند روز قبل قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سنیٹر طلحہ محمود نے انکشاف کیا تھا کہ پی ایس او نے ملک بھر کے پٹرول پمپس کی مانیٹرنگ کے ٹھیکے دو اسرائیلی کمپنیوں کو دئیے ہیں۔ ان کمپنیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی RAW اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے لوگ بھی موجود ہیں۔ دونوں بدنام زمانہ خفیہ ایجنسیوں کے پاکستان کے خلاف عزائم کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان پر شوکت عزیز جیسے دشمن کے ایجنٹ بھی حکمرانی کرتے رہے۔ پاکستان آنے سے قبل شوکت عزیز دنیا میں سٹیل مافیا کے سرغنہ بھارتی نژاد متل کے ملازم تھے۔ پاکستان سے حکمرانی کے بعد واپس گھر گئے تو پھر سے اس کی ملازمت اختیار کر لی۔ اسی بنا پر کھربوں مالیت کی سٹیل مل متل کے ہاتھوں صرف 21 ارب روپے میں بیچنے پر تیار ہو گئے تھے۔ شوکت عزیز کے ہی دور میں بلوچستان میں سونے کی کانوں کا ٹھیکہ بھی یہودی کمپنی کو دیا گیا۔
ریکوڈیک پاکستان میں ایران اور افغانستان کے سنگم پر واقع ضلع چاغی کا ایک ریگستانی قصبہ ہے۔ اس علاقے میں دنیا کے سونے اور تانبے کے سب سے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کی دنیا میں سونے اور تانبے سے متعلق معلومات رکھنے والے اداروں کے ہاں بڑی اہمیت ہے لیکن پاکستانیوں کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ رپورٹس کے مطابق سونے اور تانبے کے یہ ذخائر 65 ارب ڈالر مالیت کے ہیں جو آسٹریلوی کمپنی کے پاس 21 ارب ڈالر میں بیچ دئیے گئے۔ اس کمپنی کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ یہ یہودیوں کی ملکیت ہے۔ سونے اور تانبے کے یہ ذخائر ایران کے سرچشمہ اور چلی کے اسنڈیڈا سے بھی کئی گنا بڑے ہیں۔ ریکوڈیک سے سونا نکالنے کا ٹھیکہ ٹیتھیان کمپنی نے لیا تھا۔ اس نے آگے چل کر دو مزید کمپنیوں کو بھی شراکت دار بنا لیا جن میں کینیڈا سے تعلق رکھنے والی یہودی کمپنی بیرک گولڈ بھی ہے۔ اس کے سونے کی کانوں سے مفادات تو وابستہ ہیں ہی اس کے مالک جارج وال کینس نے اپنی یہودی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ پراپیگنڈہ بھی شروع کر دیا کہ بلوچستان القاعدہ اور طالبان کا گڑھ ہے۔ جس کے بعد امریکہ نے بلوچستان میں بھی ڈرون حملے کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی اور یہ پلاننگ ابھی تک ہو رہی ہے۔ اگر بلوچستان میں طالبان اور القاعدہ ہوتی تو نہ آسٹریلوی کمپنی ٹیتھیان کے پاﺅں یہاں جمتے نہ کینیڈین بیرک گولڈ موجود ہوتی اور نہ ہی چلی کی انٹو فیگسٹا اپنا کام جاری رکھ سکتی۔ یہودی کمپنیوں کو قیمتی معدنیات کے اونے پونے داموں ٹھیکے دینا یقیناً شرمناک ہے۔
اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے لئے حکومت پاکستان نے تل ابیب میں کیمپ آفس قائم کر دیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا خبط صرف موجودہ حکمرانوں کو ہی نہیں سابقون کو بھی تھا۔ 2005ءمیں وزیر خارجہ قصوری نے ترکی میں اسرائیلی وزیر خارجہ سلمان شیلوم اور جنوری 2008ءکو مشرف نے پیرس میں وزیر دفاع ایہود بارک سے ملاقات کی تھی۔ مشرف کو دو چار سال مزید جبری حکمرانی کا موقع مل جاتا تو شاید اسرائیل کو تسلیم بھی کر لیتے۔ البتہ دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے تل ابیب میں کیمپ آفس قائم کرنے کی تردید کی ہے۔ اس تردید پر سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کی فیملی میگزین سے گفتگو کا اقتباس سامنے رکھنا چاہئے۔ وہ فرماتے ہیں ”میرا خیال ہے کہ میں نے 40 سال بطور سفارتکار جھوٹ بولا ہے۔ وہ جھوٹ جو میں نے بولا تقریباً سب سفارتکار بولتے ہیں۔ یہ میں نے ذاتی نہیں ملکی مفاد میں بولا۔“ عبدالباسط صاحب بھی سفارتکار ہیں انہوں نے بھی شاید یہ جھوٹ ملکی مفاد میں بولا ہو۔
اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے خبط میں مبتلا حکمرانوں کو قائداعظم کا فرمان یاد رکھنا چاہئے۔ قائداعظم نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا۔ اگر قوم نے قیادت کے لئے ایسے لوگوں کو چن لیا ہے تو ان کو حق نہیں پہنچتا کہ قائد کے فرمان سے روگردانی کریں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ترکی کا ریفرنس نہ دیں۔ موجودہ ترکی کا بس چلے تو وہ بھی تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے لے۔ ترکی کے فلوٹیلا کا جو حشر اسرائیل نے کیا تھا موجودہ اسلام پسند ترکی اسے فراموش نہیں کر سکتا۔ فلسطینیوں پر جو بیت رہی ہے اس کو پیش نظر رکھیں۔ اسرائیل تو فلسطینیوں کو سانس تک لینے کی آزادی دینے پر تیار نہیں۔ ہمارے ”بانکے“ چلے ہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے۔
No comments:
Post a Comment