فضل حسین اعوان
کم اگست ، 2010
ملکہ برطانیہ کے تاج میں نصب دنیا کا خوبصورت اور مہنگا ترین کوہ نور ہیرا کس کی ملکیت ہے؟ یہ بھی ایک دیرینہ تنازع ہے۔ اس کی ملکیت کے دعوے دار ایران افغانستان پاکستان اور بھارت ہیں۔ ایران افغانستان نے ملکیت کا دعویٰ ضرور کیا لیکن کبھی زیادہ سرگرمی نہیں دکھائی پاکستان ملکیت دعوے کے حوالے سے عموماً خواب غفلت کا شکار رہتا ہے جبکہ بھارت کوہ نور ہیرے پر ملکیت کا دعویٰ شدومد سے کرتا آرہا ہے۔ اسے امید ہے کہ کسی نہ کسی روز برطانیہ سے کوہ نور ہیرا واپس ضرور لے لے گا۔
لفظ امید سے ہیرے سے وابستہ داستان بھی یاد آ گئی۔ یہ بھی کوہ نور ہیرے کی طرح ہندوستان کے شہر گولکنڈہ سے ملا۔ یہ آج کسی تاج یا تخت و طا?س میں نصب نہیں بلکہ واشنگٹن کے میوزیم میں چھوٹے چھوٹے ہیروں میں گھرا لشکارے مار رہا ہے۔ اس کے میوزیم میں پہنچنے کی بھی عجیب داستان ہے۔ ایک دن واشنگٹن ڈی سی کے سونین ادارے کے عملے کو ڈاک کا عام لفافہ موصول ہوا۔ لفافہ کھولا گیا تو اس میں چمکتا دمکتا خوبصورت ہیرا موجود تھا جسے میوزیم میں رکھوا دیا گیا۔ روایت ہے کہ گولکنڈہ کی کان سے نکالے جانے کے بعد اسے ایک مندر میں سیتا کی آنکھ میں نصب کیا گیا تھا جسے فرانسیسی تاجر ڑاں تیورنیئر چرا کر فرانس لے گیا۔ یہ ہیرا ہمیشہ اپنی نحوست کے حوالے سے مشہور رہا جس بھی بادشاہ شہزادے یا شہزادی نے پہنا آفات دوچار ہوئے یا موت سے ہمکنار۔ تیورنیئر نے 1668ئ کو یہ ہیرا فرانس کے بادشاہ لوئی چہاردہم کو فروخت کیا۔ اس کے بعد ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ فروخت ہوتا ہوا ہیرا جس کا شروع میں وزن 112 قیراط تھا تراشیدگی کے عمل سے گزرنے کے بعد آج صرف 45قیراط رہ گیا ہے۔ 1951ئ میں نیویارک کے تاجر ہیری ونسٹن نے دس لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔ اس کے بعد وہ ڈاک کے لفافے سے برآمد ہوا۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھارت کے دورے کے دوران 28 جولائی 2010ئ کو پاکستان کے خلاف کچھ زیادہ ہی منہ ماری کی۔ پاکستان کو دہشت گردی کا پشت پناہ دوہرے کردار کا حامل قرار دیتے ہوئے دھمکیاں بھی دیں اور وہ اپنے اس بیان پر ڈھٹائی سے قائم ہیں۔ اپنے اسی دورے کے دوران کیمرون کو اس وقت بدمزگی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ایک ٹی وی پروگرام کے دوران شرکائ نے مطالبہ کیا کہ برطانوی حکومت بھارت کو کوہ نور ہیرا واپس کرے۔ کیمرون کے لئے یہ ایک غیرمتوقع سوال تھا جس کا کچھ تردد کے بعد انہوں نے جواب دیا ”کوہ نور ہیرا واپس نہیں ہو سکتا۔“ گولکنڈہ سے 700سال قبل دریافت ہونے والا یہ ہیرا افغانستان اور ایران سے ہوتا ہوا لاہور میں رنجیت سنگھ کے پاس آیا تھا۔ افغانستان اور ایران اسی بنا پر حق ملکیت جتاتے ہیں۔ چونکہ یہ ہندوستان سے دریافت ہوا جو اس وقت وسیع و عریض مملکت تھی اس لئے آج ہندوستان یا بھارت کے نام سے موجود ملک اس پر سب سے زیادہ حق ملکیت جتا رہا ہے۔ لیکن اصولی طور پر یہ پاکستان کی ملکیت ہے۔ گولکنڈہ شہر ریاست حیدر آباد کا حصہ ہے۔ قانونی طور پر ریاست حیدر آباد کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا تھا۔ جس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ اس حوالے سے کوہ نور ہیرا پاکستان کی ملکیت بنتا ہے۔ لیکن سب سے بڑا جواز یہ ہے کہ ہیرا 1849ئ میں لاہور سے رنجیت سنگھ کے ورثائ سے لے کر برطانیہ لے جایا گیا تھا۔ 1992ئ میں یونیسکو نے ایک قانون منظور کرایا جس پر برطانیہ سمیت دنیا کے تمام ممالک نے دستخط کئے۔ اس کے مطابق نوادرات جس علاقے سے لئے گئے ہوں اسی علاقے کو واپس کرنا ضروری ہیں۔ 1994ئ میں نواز شریف کے وزیر ثقافت شیخ رشید نے اسی قانون کی بنیاد پر کہا تھا کہ ہم نے برطانیہ سے کوہ نور ہیرا واپس لینے کا عزم کر رکھا ہے۔ قبل ازیں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1976ئ میں اپنے برطانوی ہم منصب کو کوہ نور ہیرا کی واپسی کےلئے خط لکھا تھا آج بھٹو کے جاں نشینوں کی حکومت ہے۔ کوئی کام بغیر کمیشن کے بھی کر دکھائیں۔ کوہ نور ہیرے کی واپسی کا معاملہ بھرپور طریقے سے اٹھائیں۔ برطانیہ کے ساتھ بات کریں۔ اقوام متحدہ سے رجوع کرنا پڑے تو بھی گریز نہ کریں۔
No comments:
Post a Comment