About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, August 21, 2010

! میں ہوں ناں


فضل حسین اعوان ـ 18 اگست ، 2010

 پیپلز پارٹی اور اس کی سیاست سے کوئی ہزار اختلاف کرے، اس کی پالیسیوں پر انگلی اور سوال اٹھائے، اسے جس طرح چاہے دوش دے لیکن یہ آج کی اٹل حقیقت ہے کہ اس کے چیئرمین کا پارٹی پر مکمل کنٹرول ہے۔ لوگوں کے وہ خدشے یکسر غلط ثابت ہوئے کہ صدارتی اختیارات سے دستبردار ہونے کے بعد صدر آصف علی زرداری کی پارٹی پر گرفت بھی ڈھیلی پڑ جائے گی۔ اٹھارہویں ترمیم بہت سے صدارتی اختیارت بہا کر لے گئی لیکن بے اختیار صدر آج بھی طاقتور صدر ہے اور حکومتی معاملات ان کی منشا و مرضی کے مطابق چل رہے ہیں۔ دوسری حقیقت یہ بھی ہے آصف علی زرداری نے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے بڑے عہدوں پر براجمان گورووں کا سنہری اصول بھی اپنا رکھا ہے کہ ماتحتوں میں نالائقوں اور کم عقلوں کو جمع کیا جائے۔ کم از کم ایسے شخص کو قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جائے جو اپنی اہلیت اور محنت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہو۔ جناب صدر صاحب نے بھی اپنے گرد ایسے ہی لوگوں کا مجمع لگا رکھا ہے۔ جن کی اہلیت و قابلیت سے کوئی خطرہ تھا ان کو کھڈے لائن لگا دیا جن سے مٹی کے مادھو بنے رہنے کی توقع تھی ان کو قوم کے سر پر سوار کر دیا اور خود ان کے سر پر سوار ہو گئے۔ 
اپنی دانست میں صدر محترم نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ ایک پُرعزم شخصیت ہیں ”لائی لگ“ نہیں۔ لائی لگ ہوتے تو سیلاب میں چیختے اور بلکتے بچوں اور خواتین کی پکار پر فرانسس اور برطانیہ کا دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس چلے آتے لیکن انہوں نے جو پروگرام ترتیب دیے ان کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیا۔ ان کے بعد ملک میں سیلاب زدگان کی مدد کے لئے فوج اور صوبائی حکومتیں اپنے طور پر جو بھی بن پڑا کرتی رہیں۔ مرکزی حکومت اپنے لیڈر کی عدم موجودگی کی وجہ سے بے مہار سے زیادہ لاوارث تھی اس لئے وزیراعظم سمیت کوئی وزیر مشیر ٹھنڈے کمرے چھوڑ کر باہر نہ آیا وزیراعظم صاحب کی یہ حالت ہے کہ رات کو بطورِ وزیراعظم پھونکیں مار کر سوتے ہیں صبح جاگتے ہیں تو سر جھٹک کر یقین کرتے ہیں کہ کیا میں اب بھی وزیراعظم ہوں۔ انہوں نے صدر کی عدم موجودگی میں سیلاب زدگان کی مدد کا ایک ہی ڈرامہ کیا اور میانوالی میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ان کے ساتھ ڈرامہ کر دیا ۔۔۔ حساب برابر۔ اس کے بعد ان کو سیلاب زدہ علاقوں میں جانے کی توفیق ہوئی نہ کوئی مرکزی وزیر مشیر ”علاقہ غیر“ میں گیا۔ البتہ جب یہ کہا گیا کہ صدر کو اس مصیبت کی گھڑی میں اپنی قوم کے درمیان موجود ہونا چاہیے تو فرمایا ”وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے ۔۔۔ میں ہوں ناں“ ۔۔۔ شہباز شریف نے کہا سیلاب زدگان کی مدد کے لئے 125 ارب چاہئیں۔ گیلانی صاحب نے کہا میں ہوں ناں، غور کریں گے۔ لوگ مر رہے ہیں وزیراعظم صاحب غور کر رہے ہیں، جہاں جہاں صدر کی کمی محسوس ہوئی مخدوم نے کہا میں ہوں ناں۔ برمنگھم میں ہوتے تو شاید حاجی شمیم کے ایکشن پر سامنے آ کر کہہ دیتے میں ہوں ناں! بس ایسے ہی کاموں کے لئے زرداری صاحب نے کئی مخدوم اور خادم پال رکھے ہیں۔ 
کچھ مہربان شہباز شریف کی امدادی کارروائیوں کو ڈرامہ قرار دیتے تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ زرداری صاحب گھر لوٹے ہیں تو خود سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیں، بختاور کروڑوں کا سامان متاثرین میں تقسیم کر چکی ہیں گیلانی صاحب کے جیسے انگاروں پر پاوں آ گئے ہیں، وزیروں مشیروں کی دُم کو آگ لگ گئی ہے آج سب کے سب متاثرین کے درمیان ان کی امداد پر کمربستہ ہیں۔ صدر ملک میں ہوتے تو پہلے دن سے امدادی کارروائیاں پوری تندہی سے شروع ہو جاتیں جو تقریباً تباہی و بربادی کے دس بارہ دن بعد شروع ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیلاب زدگان ریلیف سے مطمئن نہیں خصوصی طور پر سرکاری اداروں کی کارکردگی سے۔ جماعت الدعوة، جماعت اسلامی جیسی تنظیمیں اپنے مکمل نیٹ ورکس کے ساتھ دن رات ایک کئے ہوئے ہیں لیکن آفت اور مصیبت اتنی بڑی ہے کہ متاثرین کی امداد کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ متاثرین کیا عام آدمی بھی سوال کرتا ہے کہ گو عالمی برادری نے مصیبت کے مقابلے میں بہت کم مدد کی ہے لیکن یہ بھی کروڑوں ڈالر میں ہے۔ یہ رقم کہاں جا رہی ہے؟ کیا زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے دیے گئے برطانیہ کے 30 کروڑ پاونڈ کی طرح یہ اربوں روپے بھی اِدھر اُدھر ہو جائیں گے؟ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے پاک فوج کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ آج سب سے زیادہ فوج ہی سرگرم ہے جس نے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے ریلیف فنڈ قائم کر دیا ہے جس کی مناسب تشہیر نہ ہونے سے عوام اس سے لا علم ہیں۔ یقیناً اتنے بڑے بحران سے نبرد آزما ہونے کا پاک فوج ہی یارا رکھتی ہے جس پر قوم کو اعتماد بھی ہے۔

No comments:

Post a Comment