About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, August 21, 2010

زیرو گراﺅنڈ پر قرطبہ ہاﺅس کی تعمیر


فضل حسین اعوان ـ 
امریکی تاریخ میں سوائے روز ویلٹ کے کسی کو بھی دو مرتبہ سے زیادہ صدر منتخب نہیں کیا گیا۔روز ویلٹ نے 4مرتبہ الیکشن لڑا اور چاروں بار جیت گئے۔ 4بار الیکشن لڑنے کی وجہ جنگ عظیم دوئم تھی وہ1933 سے 1945 اپنی موت تک امریکہ کے صدر رہے۔ پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن کی اپنے وطن کی آزادی کیلئے بے پناہ خدمات ہیں وہ 1789 سے 1797 تک صدر رہے ان کو تیسری مرتبہ صدر بنانے کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے ٹھکرادی کہ امریکن مائیں بانجھ نہیں ہیں۔ امریکہ میں ٹیلنٹ ختم نہیں ہوا۔ میں نے اپنے آئیڈیا آزمائے ہیں اب نئے آئیڈیا کی ضرورت ہے۔ نئے لوگوں کو آگے آنا چاہئے۔
نیو یارک میں نائن الیون کو دہشت گردی یا سازش کے ذریعے جڑواں ٹاورگرا دئیے گئے۔ امریکہ نے اس جگہ کو گراﺅنڈ زیرو کا نام دیکر تین ہزار سے زائد افراد کی یادگار کھڑی کردی ہے اس سازش میں امریکیوں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ پاکستان سمیت بہت سے دوسرے ممالک کے لوگ بھی مارے گئے۔ نائن الیون کی دہشت گردی کا الزام اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں پر لگا کر امریکہ نے افغانستان کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ بعد ازاں خود امریکی میڈیا نے بھی نائن الیون کی دہشت گردی کو مشکوک قرار دیتے ہوئے اسے افغانستان پر چڑھائی کے لئے ایک منصوبہ قرار دیا۔ اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جو جہاز ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرائے گئے تھے ان میںکوئی مسافر تھا نہ پائلٹ۔ وہ ریموٹ کنٹرولڈ تھے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ میں مسلمان کا بالعموم اور پاکستانیوں کا بالخصوص عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ تاہم مسلمانوں نے امریکیوں کے ساتھ ہمیشہ اظہار یکجہتی کیا۔ امریکہ میں موجود مسلمان تہذیبوں کے درمیان تصادم نہیں، مفاہمت کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ نائن الیون کی کشیدگی کوکم سے کم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے ان کے ذہن میں گراﺅنڈ زیرو پر قرطبہ ہاﺅس کے نام سے مسلم ثقافتی سنٹر کی تعمیر کا منصوبہ آیا۔ جس میں ایک مسجد بھی ہوگی۔ اس مجوزہ 13منزلہ سنٹر میں 500نشستوں کا آڈیٹوریم، لائبریری، باسکٹ بال کورٹ اور سوئمنگ پول بھی تعمیر کئے جائیں گے۔یہ سنٹرہر کسی کے لئے کھلا ہوگاسنٹر کے لئے امریکن سوسائٹی فار مسلم ایڈوانسمنٹ(ASMS) سرگرم ہے۔ اس سنٹر پر لاگت کا تخمینہ 100ملین ڈالر ہے۔ یہ تاریخی سنٹر وہاں موجود ایسی عمارت کو گراکر تعمیر کیاجائیگا جس کی کوئی تاریخی اہمیت نہیں ہے۔ جگہ کے مالک شریف الجمال نے مسلم ثقافتی سنٹر کی تعمیر کے لئے جگہ مسلمانوں کو فروخت کرنے پررضا مندی ظاہرکی ہے۔ مسلمانوں نے یہ منصوبہ نیو یارک کمیونٹی بورڈ کے سامنے رکھا تو بورڈ کے ارکان کی اکثریت نے تعمیر کی اجازت دے دی۔ 39 ارکان نے تعمیر کے حق میں ووٹ دیا۔ مخالفت میں صرف ایک ووٹ تھا۔ جبکہ دو ارکان ووٹنگ کے موقع پر موجود نہیں تھے۔ بورڈ کے اجلاس میں پاکستانی خاتون طلعت ہمدانی بھی موجو د تھیں جن کا بیٹا نائن الیون کو مارا گیا تھا۔
جمعہ 13 اگست کو صدر اوباما نے وائٹ ہاﺅس میں مسلم کمیونٹی کو افطار ڈنر دیا جس میں اوباما نے قرطبہ ہاﺅس کی تعمیر کی حمایت کی۔ امریکی شدت اور انتہا پسندوں کا ردّ عمل دیکھا تو پاﺅں پر مُکر گئے۔ اوردوسرے دن کہا کہ انہوں نے گراﺅنڈ زیرو پر مسجد کی تعمیر کی حمایت نہیں کی تھی۔ انٹر نیٹ پر اوباما کی حمایت اور تردید دونوں کی ویڈیو موجود ہے۔ اوباما کے پینترا بدلنے کی وجہ یہ ہے کہ نومبر میں مڈ ٹرم انتخابات ہورہے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہے۔ لیکن مسلمانوں سے زیادہ ری پبلکن اور ڈیمو کریٹس کو یہودیوں اور ہندوﺅں کے ووٹ اور حمایت عزیز ہے۔ یہودی اور ہندو نہ صرف امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہیں بلکہ یہودیوں کا تو امریکی معیشت پر مکمل کنٹرول بھی ہے۔ اس لئے دونوں پارٹیوں کی طرف سے قرطبہ ہاﺅس کی مخالفت ہورہی ہے۔ اگر قرطبہ ہاﺅس کی تعمیر کی حمایت میں کوئی آواز اٹھتی بھی ہے تو اس کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
امریکہ کا صدر کوئی للو پنجو نہیں ہوسکتا لیکن اوباما کا اپنی پالیسیوں پر عمل نہ کرنا ،تبدیلی کا نعرہ لگا کر اس سے پھر جانا ۔ عراق اور افغانستان کے حوالے سے کسی واضح موقف پہ قائم نہ رہنا اور اب مسجد کی تعمیر کی حمایت پھر تردید کرکے یہ ثابت کردیا کہ و ہ واقعی” ولا جوڑھ“ ہیں۔ یہ بش کے جاں نشین ہیں بش اور اوباما دونوں اضطراری ذہنیت کے مالک ہیں ایک نے دنیا کی تباہی کی ابتدا کی تو دوسرا انتہا تک پہنچانے پر کمر بستہ ہے۔ امریکی صدر کا منصب ہے کہ بات اور فیصلہ سوچ سمجھ کر کرے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اوباما کی ملامت کرتے ہوئے صحیح لکھا ہے” اوباما کو افطار ڈنر کے موقع پر سوچ سمجھ کر بات کرنا چاہئے تھی اگر مسجد کی تعمیر کی حمایت کی تھی تو اس پر قائم رہتے“
جارج واشنگٹن نے تیسری بار صدر بننے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے جو کہا تھا آج سوا دوسو سال بعد غلط ثابت ہورہا ہے؟ کیا امریکہ میں ٹیلنٹ ختم ہوگیا؟ نئے آئیڈیاز کے حامل افراد کا قحط پڑ گیا؟ امریکن مائیں کیا بانجھ ہوگئی ہیں کہ اعلیٰ اقدار کی حامل شخصیات کے بجائے بش اور اوباما جیسے تہذیبوں کے دشمن اور بات کرکے مکر جانیوالے صدر پیدا کر رہی ہیں۔

No comments:

Post a Comment