بدھ ، 23 نومبر ، 2011
دبئی چلیں
فضل حسین اعوان
کراچی بیسڈ کارپوریٹ اینڈ مارکیٹنگ کمپنیCMC کی طرف چار دن کیلئے دبئی ٹور کی دعوت تھی۔ جناب مجید نظامی صاحب نے ڈیلی نیشن اور نوائے وقت کی طرف سے مجھے نامزد کیا جس پر ادارے کی طرف سے اسے کرم فرمائی پر خوشی توبھی بہت ہوئی مگرایک خوف بھی محسوس ہوا۔خوف پی آئی اے میں ممکنہ سفر کا تھا۔آج پی آئی اے کی وہ حالت ہوچکی ہے جس کی عکاسی ایک سکھ کے جہاز پر سوار ہوتے ہوئے ائیر ہوسٹس سے مکالمے میں ہوتی ہے۔ سکھ نے پوچھا تھا کہ جہاز میں تیل تو پورا ہے۔ائیر ہوسٹس نے حیرانی سے ہاں کہا۔سردار جی کا دوسرا سوال ہوا کے پورا ہونے اور انجن کے ٹھیک ہونے سے متعلق تھا۔ ائیر ہوسٹس نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا سردار جی آپ کو یہ پریشانی کیوں ہے۔اس پر سردار صاحب نے کہا تھا اس لئے پوچھا کہ کہیں راستے میں دھکا لگانے کو نہ کہہ دینا ! کرپشن اور اقربا پروری نے پی آئی اے کی کمر توڑ کررکھ دی ہے۔جہاز کا بروقت محوِ پرواز ہونا اور بغیر ایمر جنسی کے منزلِ مقصود پر پہنچ جانا آج معجزے سے کم نہیں....!
سی ایم سی کی طرف سے ٹور کی نوعیت کے حوالے سے تفصیلات روانگی سے ایک روز قبل بتائی گئیں۔ سی ایم سی امیج میکنگ اور ایڈورٹائزنگ کی بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس نے اپنے ایک بڑے کلائنٹ امارات ائیر لائن کی دعوت پر فیملرائزیشن ٹور ارینج کیا تھا۔ہمیں ایمر یٹس ائیر لائن پر ہی سفر کرنا تھا۔دیگر ساتھیوں میں دی نیوز کے سلیم قاضی، فرنٹئر پوسٹ کے جلیل آفریدی، پاکستان آبزرور کے گوہر زاہد ملک،ڈیلی ٹائمز کے شبیر سرور، بزنس ریکارڈ رکے محمد علی اور ایکسپریس ٹربیون کے فصیح منگی شامل تھے۔شبیر سرور اور میں نے لاہور سے دیگر نے کراچی،اسلام آباد اور پشاور سے جانا تھا۔ سی ایم سی کی طرف سے کو آرڈینیٹر کے طورپر مس انعم بدھیلیہ اوردبئی میں ایمر یٹس ائیر لائن کی طرف سے مس شبھان برڈٹ کوآرڈینیٹر تھیں۔
لاہور سے دبئی ائیر پورٹ اور پھر لی میریڈین گرہوڈہوٹل تک امارات ائیر لائن نے بڑے پروٹوکول کے ساتھ پہنچایا۔ہوٹل استقبالیے پر موجود نوجوان نے بتایا کہ آپ کی 17نومبر سے بکنگ ہے۔اس وقت صبح کے 4 بجے تھے۔یعنی 17 تاریخ کو شروع ہوئے 4گھنٹے ہوچکے تھے۔نوجوان نے یہ بتا کر ہماری نیم خوابیدہ آنکھوں سے نیند اڑا دی کہ ہوٹل کے قانون کے مطابق اگلی تاریخ دن بارہ بجے شروع ہوگی اور ہمیں کمرے دوبجے بعد از دوپہر ملیں گے۔ پروٹوکول دینے والے جاچکے تھے۔خو ش قسمتی سے استقبالیئے پر تعینات نوجوان عماد ناصر کا تعلق پشاور سے تھا جس نے ہمارے ساتھ تعاون کیا اور ہمیں اسی وقت کمروں میں شفٹ کردیا گیا۔ صبح دس بجے تک باقی ساتھی بھی پہنچ گئے۔ اسی روز ہمیں ایمر یٹس کے کیبن کریوز کے ٹریننگ سنٹر جانا تھا۔ یہیں پہ حامد فیض صاحب سے ملاقات ہوئی وہ سینئر ترین پاکستانی پائلٹ ہیں A380جہاز اڑاتے ہیں جو دنیا کا شاید سب سے بڑا مسافر بردار طیارہ ہے.... امارات ائیر لائنز نے پاکستان سے دو جہاز لیز پرلے کراکتوبر1985 میں سفر کاآغازکیا۔ آج اس کے پاس 164 جدید ترین طیارے ہیں۔2016 تک وہ اس تعدادکو280 تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ آج ایمر یٹس دنیا کی تیسری بڑی ائیر لائن ہے۔خوشی ہوئی کہ متحدہ عرب امارات کی ایک ریاست نے اتنی تیزی سے ترقی کی ساتھ ہی یہ سوچ اور دیکھ کر دل کٹ کے رہ گیا کہ جس پی آئی اے نے ایمریٹس ائیر لائن کو قیام میں مدد دی وہ آج پستی کی گہرائیوں میں جاگری ہے۔کیا پاکستان میں اہلیت و صلاحیت کی کمی ہے؟ ہرگز نہیں۔ نہ صرف ایمر یٹس کے وجود میں آنے میں پاکستان کا کردار ہے بلکہ آج پاکستانی ایمریٹس ائیر لائن میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ایمر یٹس کے ہرشعبے میں پاکستانیوں کی تعداد نمک میں آٹے کے برابر ہے۔مثلا کیبن کریوز کی تعداد14 ہزار ہے۔ان میں 25پائلٹوں سمیت 124پاکستانی ہیں جبکہ انجینئرنگ کے شعبے میں سب سے زیادہ پاکستانی ہیں۔ ان میں سے اکثر پاکستان آناچاہتے ہیں لیکن کرپشن ان کے راستے کا قلزم بن چکا ہے۔ ہما خواجہ 17سال سے ائیر ہوسٹس کے طورپر کام کر رہی ہیں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی وفد کے دورے کا سنا تو اپنی چھٹی کے باوجود چلی آئی وہ بڑے فخر سے پاکستانی گرین پاسپورٹ دکھا رہی تھیں۔
دبئی بڑی خوبصورت اور خوشحال ریاست ہے جس میں ٹورزم کابھی اہم کردار ہے۔ دبئی میں شراب اور شباب کی تلاش اور حصول مشکل نہیں۔ تاہم موجودہ بادشاہ جوئے کے سخت خلاف ہیں۔انہوں نے ریاست میں کوئی کسینو نہیں کھلنے دیا۔وہاں جتنے بھی پاکستانی انڈین یا دیگر قومیتوں کے لوگ ملے سب عزت مآب شیخ محمد کا دل سے احترام کرتے پائے گئے۔
دبئی اور پاکستان کے موازنے کیلئے بہت کچھ ہے۔وہاں آج بھی وافر مقدار میں بجلی موجود ہے اس کے باوجود مستقبل کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ونڈ اور سولر انرجی پر کام شروع ہوچکا ہے۔آج سمندر کے پانی کو ابال کر اس کی بھاپ سے ٹربائن چلا کربجلی پیدا کی جاتی ہے پھر اس بھاپ کو پانی میں تبدیل کرکے شہریوں کے استعمال میں لایاجاتا ہے۔استعمال شدہ پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ کے ذریعے کاشتکاری کے قابل بنادیاجاتا ہے۔صحرا کو اگر سرسبز نہیں بنایا تو اسے سیاحوں کیلئے سفاری مہم جوئی طرز کی سیر گاہ بنادیا گیا ہے یہاں روزانہ ہزاروں سیاح جاتے ہیں فی کس ٹکٹ350 درہم رکھی گئی ہے۔مہم جوئی کے آخر پر شام ڈھلے باربی کیو کا اہتمام اور بیلی ڈانس کا انتظام کیاجاتا ہے۔ پاکستان میں دیانتدار لوگوں کے ہاتھ میں زمامِ کار آجائے تو پاکستان چند سال میں اپنے وسائل اور محنتی عوام کے بل بوتے پر دبئی جیسی ریاستوں سے کہیں آگے جاسکتا ہے۔شہر کے اہم مقامات کی اہمیت سے آگاہی کیلئے نوجوان اسد گائیڈ کے طورپر ہمارے ساتھ تھا۔ اس کا تعلق سوات سے ہے۔پاکستان کے حالات دیکھ کراس کو بھی دکھی دیکھا۔ اُسے پاکستانی ہونے پر فخر ہے تاہم بعض اوقات شرمندگی سے بچنے کیلئے اسے اپنی قومیت چھپانا پڑتی ہے۔
ٹور کے آخر ی روز سب سے اہم ایونٹ انجینئرنگ شعبے کا وزٹ تھا۔ بس اسی مقام کیلئے پاسپورٹ ساتھ رکھنے کو کہا گیا تھا۔ہم وہاں بروقت پہنچ گئے۔ایک کیبن کے سامنے کھڑے تھے اندر بیٹھے نوجوان نے کہا لائن بنا کر پاسپورٹ جمع کرا کے وزٹنگ کارڈ حاصل کرلیں۔ لسٹ اس نے تھام رکھی تھی ۔سات آدمی لائن میںکھڑے ہوئے تو اس نے پہلے جس کو پکارا وہ چھٹے نمبر پر تھا دوسرا چوتھے پر۔لائن بنوانے کا کیا فائدہ؟ اس کے بعد ہمیں امریکہ جیسی سیکورٹی کیلئے کہا گیا۔جوتے اور بیلٹ اتارو! جو آگے کھڑے تھے انہوں نے انکار کردیا اور کہا ایسی بے عزتی نہیں کرائیں گے۔واپس جائیں گے۔ دوسرے کولیگز کے کہنے پر وہ تیار ہوگئے۔(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment