About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, November 25, 2011

دبئی چلیں؟

 نومبر ،24 ,2011


دبئی چلیں؟
(گزشتہ سے پیوستہ)
شہر کے اہم مقامات کی اہمیت سے آگاہی کیلئے نوجوان اسد گائیڈ کے طورپر ہمارے ساتھ تھا۔ اس کا تعلق سوات سے ہے۔پاکستان کے حالات دیکھ کراس کو بھی دکھی دیکھا۔ اُسے پاکستانی ہونے پر فخر ہے تاہم بعض اوقات شرمندگی سے بچنے کیلئے اسے اپنی قومیت چھپانا پڑتی ہے۔
ٹور کے آخر ی روز سب سے اہم ایونٹ انجینئرنگ شعبے کا وزٹ تھا۔ بس اسی مقام کیلئے پاسپورٹ ساتھ رکھنے کو کہا گیا تھا۔ہم وہاں بروقت پہنچ گئے۔ایک کیبن کے سامنے کھڑے تھے اندر بیٹھے نوجوان نے کہا لائن بنا کر پاسپورٹ جمع کرا کے وزٹنگ کارڈ حاصل کرلیں۔ لسٹ اس نے تھام رکھی تھی ۔سات آدمی لائن میںکھڑے ہوئے تو اس نے پہلے جس کو پکارا وہ چھٹے نمبر پر تھا دوسرا چوتھے پر۔لائن بنوانے کا کیا فائدہ؟ اس کے بعد ہمیں امریکہ جیسی سیکورٹی کیلئے کہا گیا۔جوتے اور بیلٹ اتارو! جو آگے کھڑے تھے انہوں نے انکار کردیا اور کہا ایسی بے عزتی نہیں کرائیں گے۔واپس جائیں گے۔ دوسرے کولیگز کے کہنے پر وہ تیار ہوگئے۔کیمرے تو پاسپورٹ کے ساتھ ہی رکھ لیے گئے تھے۔یہاں موبائل جوتے اور پنسل وغیرہ لکڑی کے ڈبے میں رکھ کر مشین سے گزرنے کیلئے رکھ دئیے گئے۔ میٹل ڈیٹیکٹر واک تھرو گیٹ سے گزر کر اپنا سامان اٹھا کر ایک صحافی آگے جانے لگا تو ایک بد مزاج عورت بڑی رعونت سے گویا ہوئی ” او مین ڈبہ واپس ریلنگ پر رکھو“۔عورت کے تحکمانہ لہجے پر میرے کولیگ نے جواب دیا ”آپ لوگ یہاں کس لیے بیٹھے ہیں“؟ دنیا میں کہیں ایسا نہیں کہ باسکٹ سے سامان اٹھانے والا باسکٹ یا ڈبہ واپس رکھ کر آئے۔ نوجوان کے جواب پر پولیس کا عملہ چلانے لگا۔ بات ان کے سنہری کراﺅن لگے افسر کے پاس پہنچی تو وہ بھی عملے کی طرح بد دماغ نکلا۔ ہماری بات ہی نہ سنی۔اس پر ہم سب نے مل کر جواب دیا کہ ہم وزٹ نہیں کریں گے واپس جاتے ہیں۔جس صحافی کے ساتھ عملے نے بد معاشی کی یہ وہی صاحب تھے جنہوں نے جوتے نہ اتارنے والوں کو سمجھایا تھا۔ ایسے صلح جو قسم کے انسان کے ساتھ پولیس کا رویہ انتہائی نامناسب تھا۔ اس کے بعد ہم نے کارڈ جمع کرا کے پاسپورٹ مانگے تو ہمیں بیس منٹ تک پاسپورٹ نہ دئیے گئے اس دوران پاسپورٹ ضبط کرنے کا تاثر اور ہم میں سے کچھ کو گرفتار کرنے کا عندیہ دیا گیا۔اس کے باوجود ہم وزٹ سے انکاری رہے۔ بہرحال ہمیں پاسپورٹ مل گئے۔ہوٹل کے راستے تک ہم نے باقی مصروفیات ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ بد تمیز عملے کا ایمریٹس ائر لائن سے تعلق نہیں یہ دبئی پولیس ہے۔اس تاثر کے بعد کچھ کی رائے تھی کہ باقی پروگرام جاری رکھاجائے۔ ہم ہوٹل پہنچے تو کو آرڈی نیٹر شبھان وہاں پہنچ چکی تھی جس نے معذرت کی اور باقی پروگرام جاری رہا۔ اس میں ایک تو ایمریٹس کے سوا دو کلو میٹر پر پھیلے کچن اور کیٹرنگ کا د ورہ تھا دوسرے انڈین اوشن اور ویسٹ ایشیا کے کمرشل اپریشن کے سینئر نائب صدر شیخ ماجد المعلیٰ سے انٹرویو۔ ایگزیکٹو شیف مکیش کا تعلق بھارت سے تھا جس نے لسی سمیت پاکستانی کے لذیذ کھانے بنائے تھے مکیش بات بات پر ماشاءاللہ کہتا تھا۔ اس نے بتایا کہ سال میں ایک مرتبہ اجمیر شریف خواجہ چشتی کی درگاہ پر حاضری ضرور دیتا ہوں۔ شیخ ماجد معلیٰ سے انٹرویو ہمارے ٹور کا آخری ایونٹ تھا جو بہت اچھا رہا۔شیخ تیس 35سال کے ہوں گے لیکن ان کو اپنے شعبے پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ہمارے ہر سوال کا تشفی جواب دیا یہاں بھی ایک تھوڑی سی بد مزگی ہوئی۔ ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ ایمریٹس کے حوالے سے خبروں کی پریس ریلیز کسی ایونٹ کے چار روز بعد پہنچتی ہے۔جس پر شیخ ماجد کا جز بُز ہونا قدرتی امر تھا اور وہاں سی ایم سی کی افسر مس انعم موجود تھیں۔البتہ شیخ نے شدید ردّعمل کا اظہار نہیں کیا بظاہر انہوں نے اسے سرسری انداز میں نظر انداز کردیا تاہم سی ایم سی کیلئے یہ پریشان کن امر ضرور ہے ۔ہمارے ساتھی نے نہ جانے یہ بات کیوں کردی جس سے ہماری کوآرڈینیٹر کی سبکی ہوئی۔ جس پرانعم نے وضاحت کی کہ ائیر شو کی خبریں سی ایم سی ریلیز کرتی رہی جو ہر اخبار میں بروقت شائع ہوئیں۔ ثبوت کیلئے انہوں نے ریفرنس بھی دئیے۔


یہ خبر نواے وقت کے پرنٹ پیپر میں شائع کی گئی ہے اس تارخیح کا سارا پیپر پھرنے کے لیے.جہاں کلیک کر

No comments:

Post a Comment