پیر ، 31 اکتوبر ، 2011
پیر ، 31 اکتوبر ، 2011
قائد ؒ سیکولر یا راسخ العقیدہ مسلمان ....؟
فضل حسین اعوان ـ
ایک خواب دنیا دار عالم دین مولانا حسین احمد مدنی کا بھی ملاحظہ فرمایئے جوان کی اپنی کتاب میں درج ہے۔ 1946ءجنرل الیکشن کی ہنگامہ خیزیوں کا زمانہ تھا۔ حضرت مدنیؒ مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے امیدواروں کو کامیاب بنانے کیلئے پورے ہندوستان کا طوفانی دورہ کر رہے تھے۔ صوبہ بنگال میں تمام صوبوں کے بعد الیکشن ہوا تھا۔ اس لئے حضرت اواخر فروری میں نواکھالی تشریف لے گئے۔ قافلہ میں مولانا عبدالحلیم صدیقی‘ مولانا نافع گل اور دیگر چار پشاوری طالب علم تھے۔ 3 مارچ کو گوپال پور تھانہ بیگم گنج پہنچے‘ چودھری رازق الحیدر کے دولت کدے پر قیام ہوا۔ دوسرے دن ایک عظیم الشان انتخابی جلسہ میں تقریر کا پروگرام تھا۔ رات میں گیارہ بجے کھانا تناول فرما کر 12 بجے کے قریب آرام فرمانے کےلئے لیٹ گئے۔ میں پاﺅں دباتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد نیند آگئی۔ ہم لوگ دوسرے کمرے میں جا کر کچھ ضروری کام کرنے لگے۔ تقریباً دو بجے رات میں مجھ کو اور چودھری محمد مصطفیٰ کو طلب فرمایا۔ ہم دونوں حاضر ہوئے تو ارشاد فرمایا کہ لو بھئی! اصحاب باطن نے ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ کردیا۔ میں نے عرض کیا کہ اب ہم لوگ جو تقسیم کے مخالف ہیں کیا کرینگے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہم لوگ ظاہر کے پابند ہیں جس بات کو حق سمجھتے ہیں‘ اس کیلئے پوری قوت کے ساتھ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ دوسرے دن گوپال پور کے عظیم الشان جلسہ میں تقسیم کی مضرتوں پر معرکة الآراءتقریر فرمائی۔ بالآخر 3 جون 1947ءلارڈ ماﺅنٹ بیٹن گورنر جنرل ہند کے غیرمتوقع اعلان سے اس واقعہ کی حرف بحرف تصدیق ہو گئی۔
(از مولانا رشید احمد صدیقی کلکتہ)
(حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی‘ واقعات و کرامات از حضرت مولانا سید رشید الدین حمیدی‘ مکتبہ ندائے شاہی جامع قاسمیہ مراد آباد انڈیا۔)
قائداعظم کے معالج ٹی بی سپیشلسٹ ڈاکٹر ریاض علی شاہ لکھتے ہیں کہ ”ایک بار دوا کے اثرات دیکھنے کیلئے ہم انکے پاس بیٹھے تھے‘ میں نے دیکھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں‘ لیکن ہم نے ان کو بات چیت سے منع کر رکھا تھا۔ اس لئے الفاظ لبوں پر آکر رک جاتے تھے۔ اسی ذہنی کشمکش سے نجات دلانے کیلئے ہم نے خود انہیں بولنے کی دعوت دی تو وہ بولے۔ ”تم جانتے ہو جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے‘ یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا‘ میرا ایمان ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔ پاکستان میں سب کچھ ہے‘ اسکی پہاڑیوں‘ ریگستانوں اور میدانوں میں نباتات بھی ہیں اور معدنیات بھی۔ انہیں تسخیر کرنا پاکستانی قوم کا فرض ہے‘ قومیں نیک نیتی‘ دیانت داری‘ اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں اور اخلاقی برائیوں‘ منافقت‘ زرپرستی اور خودپسندی سے تباہ ہو جاتی ہیں۔“
قائداعظم ایسی ہستی کو سیکولر قرار دینا بہتان‘ الزام اورقائد کے چاہنے والوں کیلئے بدبختوں کی طرف سے دشنام ہے۔ ہم دشنام کا جواب دشنام سے نہیں بلکہ دلیل سے دینے کے قائل ہیں۔ قائداعظم جیسے راسخ العقیدہ مسلمان نے مملکت خداداد کیا دہریت کے فروغ کیلئے حاصل کی تھی؟ قائد کو سیکولر قرار دینے والوں کی اپنی نسلیں مغربی تہذیب میں خلط ملط ہو کر گھر کی رہی ہیں نہ گھاٹ کی۔ خدارا! اپنے ملحدانہ خیالات سے معصوم بچوں کو گمراہ اور انکے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش تو نہ کریں جو مستقبل میں قائد کے خیالات و افکار کے علمبردار ہو سکتے ہیں۔ (ختم شد)
No comments:
Post a Comment