بھاشا ڈیم۔ تیسرا سنگِ بنیاد
فضل حسین اعوان ـ 20 اکتوبر ، 2011
بھاشا ڈیم۔ تیسرا سنگِ بنیاد
فضل حسین اعوان ـ 20 اکتوبر ، 2011
کسی منصوبے کیلئے خشتِ اوّل ہی اس کی تکمیل کی بنیاد ہوتی ہے۔خشتِ اوّل یعنی سنگِ بنیاد کے بعد منصوبے کی تعمیر کی نیت بھی ہو تبھی منصوبہ تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔دیا میر بھاشا ڈیم کا پہلی بار سنگِ بنیاد صدر جنرل پرویز مشرف نے اپریل 2006 میں رکھا۔ ان دنوں جنرل مشرف ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے بڑے سنجیدہ اور پرجوش تھے۔ انہوں نے بڑے جذباتی ہوکر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا عزم ظاہر کیا اور سرگرم بھی رہے۔ پھر ان چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ پرویز مشرف کے اقتدار کی شمع گُل ہونے تک پرویز مشرف کے اندر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا جذبہ بھی نابود ولاموجود ہوگیاتھا۔ مشرف یک و تنہا اہم فیصلے کرکے ان پر عملدرآمد کرانے کا شہرہ رکھتے تھے۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ان کے جذبہ و جذبات میں سرد مہری کیسے آئی یہ ہنو ز سربستہ راز ہے۔
مشرف دعویٰ کرتے تھے کہ انہوں نے مایوس ہونا نہیں سیکھا لیکن کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے وہ یقینا مایوس تھے۔اس کا اثر بھاشاڈیم کی قسمت پر بھی پڑا۔ وہ بھاشا ڈیم کی فوری تعمیر چاہتے تھے۔خشتِ اوّل کے بعد اس پر کام شروع ہوجاتا تو یقینا آج پانچ سال بعد ڈیم تکمیل کے آخری مراحل میں ہوتا۔ صدر پرویز مشرف نے کالا باغ ڈیم کی طرح بھاشا ڈیم کی تعمیر کو بھی یوں نظر انداز کیا جیسے یہ منصوبے کبھی ان کی ترجیح پر رہے ہی نہ ہوں۔ شاید وہ تمام معاملات اپنی پروردہ سیاسی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ کر خود بے خود اور خوابیدہ ہوگئے ہوں۔ مشرف کی بیگانگی طبیعت اور خوابیدگی کا فائدہ ان کے وزیراعظم شوکت عزیز نے اگلے سال ایک بار پھر بھاشا ڈیم کا سنگِ بنیاد رکھ کر پوائنٹ سکورننگ کی صورت میں اٹھایا۔2007 انتخابات کا سال تھا ۔شوکت عزیز کی طرف سے بھاشا ڈیم کی تعمیر کا سنگ بنیاد سیاسی اور انتخابی شوشہ تھااس لئے خشتِ دوئم کی نوبت کہاں آنا تھی!
اب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پرویز مشرف کی طرح بھاشا ڈیم کی تعمیر کا سنگ بنیاد بھی بڑے جوش و خروش اور ولولے کے ساتھ رکھا۔ خدا کرے تیسری مرتبہ سنگِ بنیاد کے بعد اس کی تعمیر بھی شروع ہوجائے۔انتخابات سر پر ہیں بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تو تکمیل6سات سال بعد ہوگی۔ہر معاملے میں سیاسی مفادات کے حوالے سے سوچنے والوں کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ موجودہ حکمران طویل المدتی منصوبہ بندی کے بجائے ہتھیلی پر سرسوں حمانے کے قائل ہیں۔ اِدھر منصوبہ بنا اُدھر تعمیر شروع اور پائے تکمیل کو پہنچا۔ حصہ بقدر حبثہ تقسیم۔پیسہ ہضم بات ختم ۔ آج ملک و قوم شدید ترین بحرانوں سے دوچار ہے۔ بحران نمایاں اور برپا کرنیوالے عیاں ہیں۔ بدعنوانوں اور بے ایمانوں پر ہاتھ ڈالنے کا کوئی عزم و ارادہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ریلوے،پی آئی اے،سٹیل مل اور پیپکو کی کو ڈبونے والے سب کے سامنے ہیں۔حکمرانوںکی طرف سے کوئی بد نظمی کی سی بد نظمی اور بدعملی کی سی کوئی بدعملی ہے؟۔ پرویز مشرف نے مسلم لیگ ن کی حکومت پر شب خون مارا۔ شریف فیملی کو بد ترین انتقام کا نشانہ بنایا۔پورے خاندان کو ملک بدر کیا۔ جنرل ضیاءالدین کہتے ہیں کہ مشرف نے نواز شریف کو اٹک قلعہ میں پھانسی دینے کی تیاری کی ہوئی تھی۔آج چودھری نثار موجودہ حکمرانوں کا مشرف دور سے موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صدر زرداری نے بد اعمالیوں میں مشرف کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ایسے حکمرانوں کی طرف سے ملکی مفاد کے منصوبے بھاشا ڈیم کا سنگِ بنیاد واقعی ایک معمہّ ہے۔ ان کا اس منصوبے سے کیا ذاتی مفاد ہوسکتا ہے؟ یہ ہر اس ذی شعور کیلئے سوالیہ نشان ہے جو مقتدر قوت کی سیاست کو تھوڑا بہت سمجھتا ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے جاری کردہ تفصیل کے ایک پوائنٹ نے اس سوال کا جواب دیدیا کہ حکومت اچانک بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے کیوں سرگرم ہوگئی۔ وہ پوائنٹ یہ ہے ” انتہائی شفاف طریقے سے متاثرین کو 41ارب روپے کی ادائیگی کا آغاز“ اس میں سے حسبِ سابق و روایت کس کو کتنا کمشن ملے گا؟۔
حکومت اگر واقعی ملک کو اندھیروں سے نکالنے کا عزم رکھتی ہے اور عوام میں اپنی ساکھ بحال کراناچاہتی ہے تو فوری طورپر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کے ساتھ ساتھ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا بھی عزم کرے۔ وزیراعظم گیلانی نے کہا ہے کہ بھاشا ڈیم کی تعمیرکا سنگ بنیاد رکھ کر تاریخ میں نام لکھوادیا۔ تاریخ میں نام تختیوں سے نہیں کارناموں سے رقم ہوتا ہے۔اسی مقام پر لگی مشرف اور شوکت عزیز کی تختیاں ٹھوکروںکی زد پر ہیں۔ پاکستانی ان کو جس نام سے یاد کرتے ہیں اور جو کچھ موجودہ حکومت کے بارے میں چودھری نثار نے کہا حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہوناچاہئے۔
No comments:
Post a Comment