جمعرات ، 27 اکتوبر ، 2011
عام انتخابات کون کرائے
فضل حسین اعوان
ہماری سیاست کمالات و جمالات اور خطرات و خدشات سے بھر پور ہونے کے ساتھ ساتھ معجزات و کرامات سے بھی معمور ہے۔ سیاست کی لذت ایسی کہ چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی۔ سیاست کے ناقدین اور نکتہ چیں موقع ملنے پر قلزم سیاست میں کودنے سے گریز نہیں کرتے۔ آپ نے سیاست میں آنے والے تو بے شمار دیکھے ہوں گے۔ سیاست کو خیر باد کہنے والا کوئی ایک بھی نہیں۔ ہر شعبہ میں ریٹائرمنٹ کی عمر ہوتی ہے۔ سیاست میں ایسی کوئی پابندی و قدغن نہیں۔ ہمارے ہاں موجودہ پارلیمنٹ دوسری اور آخری گریجوایٹ پارلیمنٹ ہے۔ گو اس میں جعلی ڈگری والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے تاہم جعلی ڈگری والوں نے کم از کم میٹرک اور ایف اے تو کیا ہی ہو گا۔ قبل ازیں انگوٹھا چھاپ بھی پارلیمنٹ کا حصہ رہے جن کو صدر پرویز مشرف نے گریجوایشن کی شرط رکھ کے دو انتخابات میں سیاسی اکھاڑے سے باہر بٹھا کر تماشائی بننے پر مجبور کر دیا۔ آئندہ الیکشن میں وہ پھر تعلیم اور تعلیم یافتگان کو ”دندیاں چڑا“ کر پارلیمنٹ میں دھمال اور بھنگڑا ڈالتے نظر آئیں گے۔ لیکن ان کے پارلیمنٹ میں آنے سے قبل بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
اگلے سال مارچ میں سینٹ کے الیکشن ہونے ہیں، یہ ایک جمہوری عمل ہے جو جمہوری انداز میں مکمل ہونا چاہیے لیکن آج یہ بحث زوروں پر ہے کہ سینٹ کے الیکشن ہوئے تو اکثریت کس کو ملے گی؟ اسی ایک سوال پر سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی حکمت عملی جنگی بنیادوں پر ترتیب دے رہی ہیں۔ حکمران پارٹی الیکشن لڑ کر اور دوسرا گروپ الیکشن سے قبل اسمبلیوں کا گھونٹ بھر کے یہ سنگ میل عبور کرنا چاہتا ہے۔ ایک ایم پی اے نے سینٹ الیکشن سے قبل پنجاب اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیا جس کو بڑی اہمیت دی گئی حالانکہ اس ایم پی اے کے بیان اور خود اس کی اپنی حیثیت چھپکلی کے شہتیر کوجپھے سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ مارچ تک سیاستدانوں کی بازیاں اور قلابازیاں کیا رنگ لاتی ہیں۔ اس بارے میں کوئی بھی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ البتہ سینٹ کے انتخابات کے بعد ایک نیا طوفان اٹھے گا۔ اپوزیشن یا حکومت سے باہر کی پارٹیاں شدت کے ساتھ نعرہ بلند کریں گی کہ صدر آصف زرداری کی صدارت میں عام انتخابات نامنظور۔ جس کی بازگشت آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ آج جمہوریت کی خوفناک اور بھیانک شکل ہمارے سامنے ہے۔ اسی کو لولی لنگڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ شاید ایسی بدترین جمہوریت کو بہترین آمریت سے بھی اچھا قرار دیا جاتا ہے۔ زرداری صاحب کی مدت صدارت ستمبر2013ءمیں پوری ہو گی۔ اس سے کم از کم چھ ماہ قبل عام انتخابات ہونا ہیں۔ آئین کے مطابق مرکز میں صدر اور صوبوں میں گورنر نگران حکومتیں تشکیل دیں گے۔ آج چونکہ چاروں گورنر صدر زرداری کے زیر اثر ہیں اس لئے تمام صوبوں میں نگران حکومتیں بھی ان کی مرضی کی ہوں گی۔ ہمارے ہاں تو غیر جانبدار مشینری بھی دھونس اور دھاندلی سے پاک الیکشن کرانے سے قاصر ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئر مین کی بنائی گئی نگران حکومتیں کیسے شفاف الیکشن کرا دیں گی؟ یہی سوال اپوزیشن کے دل و دماغ میں سانپ بن کر لوٹ رہا ہے۔ ان کے خدشات و تحفظات درست بھی ہوں تو بھی آئینی تقاضوں سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ بھگتیں اس قول زریں کو کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ نگران حکومتیں جتنی بھی جانبدار ہوں اکثریتی رائے کو اقلیت میں تبدیل نہیں کر سکتیں۔ ایسا ہوتا تو مشرف خود صدر اور تمام نگران حکومتیں ان کی کٹھ پتلی اور خوشامدی تھیں۔ ان کا ق لیگ کو فائدہ تو ضرور ہوا لیکن کلین سویپ ہو سکا نہ مرضی کے نتائج حاصل ہو سکے۔ مجموعی نتائج نے مشرف کی حسرتوں کا جنازہ نکال دیا۔ غیر جماعتی انتخابات میں جنرل ضیاءالحق کے پروردہ تقریباً تمام بڑے بڑے سیاست دان اوندھے بل گر گئے تھے۔ صدر آصف علی زرداری کے خسر محترم جناب ذوالفقار علی بھٹو کو گو ایک بدترین ڈکٹیٹر اور جمہوریت کے دشمن نے پھانسی دیدی تھی لیکن بھٹو صاحب کے اس دلدوز انجام کی ابتدا بھی 1977ءکے انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے ہوئی تھی۔ اگر اپوزیشن جماعتیں انتخابات کی تاریخ اور صدر آصف زرداری 77ءکی تحریک کو پیش نظر رکھیں تو 2013ءکے متوقع عام انتخابات خوش اسلوبی سے منعقد ہو سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment