13-10- 2011
!عوام جاگ گئے
فضل حسین اعوان ـ
13 اکتوبر ، 2011
یوں لگتا ہے‘ سیاسی قوتوں نے مارچ 2012ءکو سنگ میل قرار دیا ہوا ہے۔ ایک گروپ سینٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے یہ سنگ میل عبور کرنا چاہتا ہے اور دوسرا گروہ اسے ایوان بالا میں اکثریت سے محروم رکھنے کی پلاننگ کر رہا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کو ایوان بالا میں اکثریت حاصل ہو جاتی ہے تو اس سے کوئی قیامت ٹوٹے گی نہ کوئی سیاسی زلزلہ و طوفان آئے گا۔ میاں نواز شریف کو 97ءکے انتخابات میں ہیوی مینڈیٹ ملا۔ قومی اسمبلی میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت تھی۔ سینٹ میں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ اس کے باوجود ایوان بالا قانون سازی کے راستے میں رکاوٹ نہ بنا۔ جس ایوان میں برسراقتدار پیپلز پارٹی کی آج اکثریت نہیں ہے۔ اسی میں ڈیڑھ دو ماہ قبل حکومت نے جس کو چاہا اپوزیشن لیڈر منتخب کروا لیا۔ اصل اپوزیشن کے امیدوار اسحاق ڈار ہار گئے۔ پاکستان کی سیاست میں کئی پستیوں سے اٹھ کر اوج ثریا تک پہنچے اور بعض کو اوج ثریا سے پستیوں میں گرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ ضیاءاور مشرف اپنی اپنی اسمبلیوں سے اگلی مدت کے لئے بھاری اکثریت سے صدر چنے گئے تھے۔ ایک کو خدا نے اپنے پاس بلا لیا دوسرے کو دربدر کر دیا۔ میاں محمد نواز شریف بھاری مینڈیٹ کے باوجود آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔ مشرف دور میں زرداری صاحب قید میں تھے۔ پھر مشرف دور میں ہی ان کی پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور مشرف کی کرسی پر زرداری صاحب نے دسترس حاصل کر لی۔ کل مشرف نواز اور شہباز شریف کو پاکستان واپس نہیں آنے دے رہے تھے آج وہ خود دل میں وطن واپسی کی جوت جلائے بے چارگی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
حکومت انجانے خوف کا شکار ہے کہ سینٹ الیکشن سے قبل حکومت کے خاتمے کی سازش ہو رہی ہے جسے اتحادیوں سے مل کر ناکام بنانے کا عزم ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ میاں نواز شریف نے گذشتہ ماہ زرداری صاحب کو گلدستہ صحت بھجوایا تھا کل ہی انہوں ایک بار پھر کہا ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ فوج کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں کسی جماعت کی اقلیت اور اکثریت سے دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اپنی آئی پر آجائے تو 111 بریگیڈ کی ایک جیپ اور دو تین ٹرکوں کے راستے میں بھاری اکثریت اور ہیوی مینڈیٹ سمیت کچھ بھی حائل نہیں ہوتا۔ پھر حکومت کے خلاف سازشیں کون کر رہا ہے؟ ویسے جو طرز اور انداز حکمرانی مرکز والوں نے اپنا رکھا ہے ان کے خلاف کسی کو سازش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ خود ہی اپنی منزل کھوٹی کر رہے ہیں۔
گذشتہ ساڑھے تین سال سے ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک بحران مسلط ہے۔ بجلی گیس کی قلت‘ تیل کی قیمتوں میں اضافہ‘ روپے کی بے قدری‘ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ بدامنی‘ رشوت ستانی‘ اقربا پروری‘ لاقانونیت عدلیہ کی بے توقیری‘ کراچی و بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ڈرون حملوں کے خلاف بزدلانہ خاموشی‘ ایسے اقدامات کے خلاف عوام کے اندر نفرت کا الاو دہک رہا ہے۔ یہ کسی بھی وقت حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ جس کی ایک جھلک گذشتہ ہفتے بلاجواز اور طویل ترین لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی ردعمل کی صورت میں پوری دنیا نے دیکھ لی۔ جس کے بعد سے بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوئی۔ یوں لگتا ہے کہ عوام کو اپنے حقوق کے حصول کا گُر آگیا ہے۔ اب شاید ہر مسئلہ کے حل کے لئے عوام کو سڑکوں پر آنا پڑا کرے گا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی سطح پر جو کچھ ہوا اسے انقلاب کی مہمیز قرار دیا جا سکتا ہے۔ آخر اب بھی بجلی پورے ملک کو بلاتعطل فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قبل ازیں نیتوں میں فتور تھا۔ باقی مسائل اور بحرانوں کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں حکمرانوں نے حالات اس نہج پر پہنچا دیئے ہیں جس پر فرانس میں پہنچے تو 1789ءمیں انقلاب برپا ہوا خدا نہ کرے کہ پاکستان میں ویسا انقلاب آئے۔ ایسے انقلاب کے راستے میں صرف حکمران ہی بند باندھ سکتے ہیں لیکن ان کو امڈتے ہوئے عوامی جذبات کا احساس نہیں ہے یا ان کے مسائل کا ادراک نہیں ہے۔
فرانسیسی بادشاہ لوئی سمیت انقلاب فرانس کے دوران ہزاروں درباریوں اور مصاحبوں کو پھانسی دی گئی اور گلوٹین میں رکھ کر سر قلم کئے گئے۔ ملکہ میری انٹونئے جس نے بھوکے فرانسیسوں کو کہا تھا کہ روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کھائیں۔ اس ملکہ کا سر قلم کرنے سے قبل اس کا سر مونڈ کے بازاروں میں گھمایا گیا تھا۔ ملکہ کے آخری الفاظ تھے ”مجھے معاف کر دو“ شاہ لوئی اور ملکہ میری کی اولاد کا انجام بھی ان جیسا ہی ہوا تھا۔ انقلاب فرانس کے پیچھے اپوزیشن کی سازش تھی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا اور نہ ہی فوج کا کردار.... یہ بھوکے ننگے اور حکمرانوں کے ستائے ہوئے مسائل اور بحرانوں کا شکار لوگوں کی بغاوت تھی۔ خدا نہ کرے یہاں ویسا خونیں انقلاب آئے۔
No comments:
Post a Comment