اکتوبر30 ، 2011
فضل حسین اعوان ـ
بھارت سے محبت‘ اسکے ساتھ تجارت‘ تعلقات کے فروغ اور تقسیم کی لکیر مٹانے
کے خبط میں مبتلا بزعم خویش دانشور قائداعظم کو سیکولر اور ارضِ پاک کی آزادی کے بعد بھی محب ہند ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی ضعف علمی کی بناءپر قائد کو دین سے واجبی سوجھ بوجھ کا حامل مسلمان قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو نظریہ پاکستان کیخلاف اپنے اندر کے خبث کو پردہ اخفا میں رکھنے کے بھی قائل نہیں۔ آزادی اظہار کے نام پر یہ فرزاندانِ اغراض و مفادات تاریخ مسخ کرتے ہوئے نئی نسل کے ذہن میں انتشار، افتراق اور نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔ انکے سامنے قائد محترم کی زندگی کا ایک ہی رخ ہے۔ دوسرا انہوں نے کبھی دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ قائداعظم سیکولر تھے نہ دین سے معمولی دلچسپی رکھنے والے مسلمان وہ تو پکے اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے تاہم افسوسناک امر ہے کہ آپ کی شخصیت کو اس مومنانہ صفات‘ مذہبی جذبات‘ دینی تاثرات اور اسلامی رجحانات کے آئینہ میں پیش نہیں کیا گیا جس طرح پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ آپ کا ہر ارشاد‘ ہر بیان‘ ہر تقریر اسلام کے رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اٹھتے بیٹھے اسلام ہی کو اپنے مخصوص رنگ اور عصری تقاضوں کے مطابق پیش کرتے تھے۔ اگر آپ کی ہر تقریر‘ ارشاد اور عمل کا دیانت دارانہ جائزہ لیا جائے تو وہ اسلام کی کسوٹی پر پورا اتریگا۔ خدا بھلا کرے جناب ڈاکٹر صفدر محمود کا جو تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو دلیل سے جواب دیتے ہیں۔ آصف بھلی صاحب بھی جواب آں غزل کےلئے ہمہ وقت کمربستہ رہتے ہیں۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری داخلہ فضل حق راوی ہیں کہ وہ حضرت قائداعظم کی رہائش گاہ پر گئے‘ وہاں مولانا شبیر احمد عثمانی پہلے سے موجود قائد سے ملاقات کے منتظر تھے۔ پتہ چلا کہ قائداعظم‘ وائسرائے سے ملنے جا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد دونوں نے ملازموں سے قائد کے کمرے سے باہر آنے میں تاخیر کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ ہم گھنٹی بجنے پر ہی صاحب کے کمرے میں جا سکتے ہیں۔ مولانا نے مزید تاخیر پر نوجوان فضل حق سے معمولی سے ایک طرف ہٹے پردے سے جھانکنے کو کہا‘ فضل حق نے دیکھا کہ قائداعظم سوٹ میں ملوث سجدہ ریز تھے۔ قائدا کا خدا‘ رسول اور اپنے دین و مذہب پر کتنا کامل یقین تھا۔
ایسا ہی ایک واقعہ مولانا حسرت موہانی بیان کرتے ہیں کہ ”ایک روز میں جناح صاحب کی کوٹھی پر صبح ہی صبح نہایت ضروری کام سے پہنچا اور ملازم کو اطلاع کرنے کو کہا‘ ملازم نے کہا‘ اس وقت ہم کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ تشریف رکھیں‘ تھوڑی دیر میں جناح صاحب خود تشریف لے آئیں گے‘ چونکہ مجھے ضروری کام تھا‘ اس لئے مجھے ملازم پر غصہ آیا اور میں خود کمرے میں چلا گیا۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں پھر تیسرے کمرے میں پہنچا تو برابر والے کمرے سے مجھے کسی کے بلک بلک کر رونے اور کچھ کہنے کی آواز آئی۔ یہ جناح صاحب کی آواز تھی‘ میں گھبرا گیا اور آہستہ سے پردہ اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قائداعظم سجدے میں پڑے ہیں اور بہت ہی بیقراری کے ساتھ دعا مانگ رہے ہیں۔ میں دبے پاﺅں وہیں سے واپس آگیا“
قائداعظم نے دین اسلام سے اپنی دلچسپی لگاﺅ اور اس پر عمل پیرا ہونے کا پہلو جان بوجھ کر مخفی رکھا۔ خدا اور اسکے رسول نے محمدعلی جناح کو برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کیلئے چنا۔ ہمارے نزدیک یہی قائد کی بزرگی و بزگزیدگی اور اللہ کے حضور بلندی درجات کا ثبوت ہے۔ بندگانِ خدا اپنے محبوب کے ارشادات اور اشاروں کو عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھتے۔ جن کی عقل پر پردہ پڑا ہو وہ واضح نشانیوں کو بھی اپنی ناقص عقل کے باعث مبہم قرار دے دیتے ہیں۔
مولف عبدالمجید ایڈووکیٹ کی کتاب ”زیارت نبوی بحالتِ بیداری“ میں ایک واقعہ درج ہے‘ بقول راوی قائداعظم کے ساتھی ملاقات کیلئے حاضر ہوئے تو قائداعظم گہری سوچ میں غرق تھے‘ مجھے دیکھ کر فرمایا: ”کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مجھے اقبال نے لندن سے واپس بلایا‘ جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ لیاقت علی خان لے کر آئے‘ بے شک ان دونوں حضرات کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے لیکن اصل بات جو مجھے یہاں لائی‘ کچھ اور ہے۔ ایک رات میں لندن میں سو رہا تھا کہ جھٹکے سے آنکھ کھل گئی لیکن میں پھر سو گیا۔ دوسرا جھٹکا ذرا تیز تھا۔ میں نے دروازہ کھول کر باہر کا جائزہ لیا اور اطمینان کرکے دوبارہ سو گیا۔ تیسرے جھٹکے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں اٹھ بیٹھا۔ میرا کمرہ خوشبو سے مہک رہا تھا اور میں کسی کی موجودگی محسوس کر رہا تھا۔ آپ کون ہیں؟ میں تمہارا پیغمبر ہوں‘ ہندوستان جاﺅ اور مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کی رہنمائی کرو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم کامیاب رہو گے‘ انشاءاللہ۔ اس کے بعد میں جتنی جلد ہو سکتا تھا‘ ممبئی آگیا۔
بیداری کی حالت میں زیارت کی بات چلی ہے تو عاشقانِ رسول اور ختم نبوت پر یقین اکمل و محکم رکھنے والے سن لیں ممتاز قادری بھی اسیری کے دوران اس سعادت بابرکت سے سرفراز ہو چکے ہیں۔ رسالت مآب سے ان کی محبت اور عشق کا اندازہ کیجئے کہ پہلی ملاقات کیلئے لواحقین کو ایک گھنٹے کی ملاقات کا وقت دیا گیا۔ ملاقاتیوں میں ان کا ننھا بیٹا بھی شامل تھا۔ یہ لوگ گئے تو ممتاز کو ہشاش بشاش پایا۔ دنیاوی باتوں کے بجائے ممتاز نے محفلِ ذکر و نعت سجالی‘ ملاقات ختم ہونے میں پندرہ منٹ بچے تو کہا‘ سات آٹھ منٹ مزید ذکر حبیب کرلیں۔ ایک اور ایمان افروز واقعہ ملاحظہ فرمائیے جو علامہ ملک خادم حسین رضوی صاحب نے ایک ریٹائرڈ جسٹس صاحب کے حوالے سے میلاد کی محفل میں سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں سنایا۔ ”خواب میں دیکھا کہ پاک سرزمین پر آسمان سے ایک روشنی اتر رہی ہے‘ منظر واضح ہوا تو ایک بزرگ کے کندھوں پر نوجوان سوار تھا‘ پتہ چلا کہ بزرگ پیرانِ پیر ہیں۔ کئی روز بعد اچانک میڈیا میں ایک واقعہ کا چرچا ہوا‘ میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا جس نوجوان کو بار بار دکھایا جا رہا تھا‘ وہ وہی تھا جو حضور غوث اعظم کے کندھوں پر سوار تھا۔ غازی ممتاز قادری۔ (جاری ہے)
No comments:
Post a Comment