11-10-06
بجلی۔۔۔وافر اور فری
فضل حسین اعوان
چین کے صوبہ شنڈونگ میں ربر ڈیم سے 7 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی تھی۔ حکومت نے پیداوار کی استعداد بڑھانے کے لیے کمپنیوں سے رابطے کئے تو ایک نے پیداوار دس گنا بڑھانے کی پیشکش کی۔ حکومت نے اسے ٹھیکہ دے دیا۔ ربر ڈیم اس ڈیم کو کہتے ہیں جس کی اونچائی کم اور پانی کا پھیلاﺅ زیادہ ہو۔ اس کمپنی نے ڈیم پر وہی مشینری ایک کے بعد ایک دس مقامات پر نصب کر دی جو پہلے صرف ایک جگہ پر تھی۔ اس سے ہر پراجیکٹ سے سات ہزار میگاواٹ پاور پیدا ہونے لگی۔ آج اس ڈیم سے 70 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔
دو ماہ قبل پاکستانی صحافیوں کا وفد چین کے دورے پر گیا۔ دی نیشن کے ایڈیٹر سلیم بخاری صاحب بھی ساتھ تھے۔ ان کی ملاقات اس کمپنی کے ذمہ داروں سے ہوئی جنہوں نے شنڈونگ میں ڈیم کو اَپ گرڈ کیا تھا۔ ان لوگوں نے بتایا کہ تین سال قبل پاکستان نے بھی ان سے رابطہ کیا جس کے بعد کمپنی تین سال سے پاکستان میں بیس کیمپ بنائے ہوئے ہے۔ اس نے نئے ڈیم تعمیر نہیں کرنے صرف ڈیموں کی صلاحیت و استعداد کو ملٹی پلائی کرنا ہے۔ دس گنا نہ سہی پانچ چھ گنا بھی ہو جائے تو بجلی وافر مقدار میں پیدا ہو سکتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ چین کی مذکورہ کمپنی کو ان پراجیکٹس پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی جس کے لئے اسے پاکستان بلایا اور لایا گیا تھا۔ وجہ؟ امریکہ سرکار کی اجزت نہیں ہے۔ ایک تو امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کسی بھی حوالے سے چین پر مکمل انحصار کرے دوسرے پاکستان میں تیل کی سب سے زیادہ کھپت پاور پراجیکٹس میں ہوئی ہے۔ پاکستان میں تیل کی ترسیل بھی مغربی کمپنیوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ سعودی عرب سے تیل بھی امریکی آرامکو کے ذریعے درآمد ہوتا ہے۔ پاکستان جتنے بھی خسارے میں رہے، امریکیوں کو اس سے غرض نہیں۔ وہ محض اپنا مفاد دیکھتے اور اس کا حصول یقینی بناتے ہیں۔ جب تک ہمارے حکمران اپنے قومی مفادات کے بجائے بوجوہ غیروں کے مفادات کی نگرانی و نگہبانی کرتے رہیں گے عوام کا پسماندگی و درماندگی کی حالت سے نکلنا ناممکن ہے۔
آج پاکستان انرجی کے خوفناک بحران میں مبتلا ہے۔ گو اس کی بنیادی وجہ حکومت کی کرپشن نااہلی اور بدانتظامی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ امریکی خوف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو حکمرانوں کے کندھوں پر ہمہ وقت سوار رہتا ہے۔ ایران پاکستان کو سستے تیل اور برائے نام قیمت پر ڈیڑھ ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی کی پیشکش کر چکا ہے۔ گیس فراہم کرنے پر نہ صرف تیار بلکہ اپنی سائیڈ پر اس نے تمام تر انتظامات بھی مکمل کر لئے ہیں۔ ہمارے خوف کے مارے سابق اور موجودہ حکمران پیشرفت میں ہچکچا رہے ہیں۔
پاکستان میں بجلی گو مہنگی پیدا ہو رہی ہے، ضرورت کے عین مطابق ہے لیکن حکومت کی طرف سے بروقت ادائیگیوں میں مجرمانہ غفلت کے باعث پرائیویٹ کمپنیاں پیداوار بند کر دیتی ہیں جس کے باعث عوام کو 16 سے 20 گھنٹے کی ظالمانہ لوڈ شیڈنگ کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ کالا باغ ڈیم بن جائے تو کیا کہنے۔ تاہم سستی بجلی کا فوری حل چین کی کمپنی کی خدمات سے استفادہ کرنا ہے جو آپ کے آبی ذخائر کی بجلی کو دس گنا نہیں تو کم از کم 5گنا تو کر سکتی ہے جس کے بعد ایک بھی تیل اور گیس سے چلنے والے ایک بھی پاور پلانٹ کی ضرورت نہیں رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کالا باغ اور دیگر ڈیموں کی تعمیر بھی شروع کر دی جائے۔ صرف ایک کالا باغ ڈیم سے بنیادی طور پر چار ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ چینی کمپنی اسے اَپ گریڈ کرکے استعداد میں 5 گنا بھی اضافہ کر دے تو ہمیں نہ صرف بجلی ڈیڑھ دو روپے یونٹ پڑے گی بلکہ ہم بجلی برآمد کرنے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں۔ برآمد کی گئی بجلی کا ریلیف عوام کو دیا جائے تو شاید صارفین کو برائے نام 20,25 پیسے فی یونٹ ادائیگی کرنا پڑے جو آج 12 روپے یونٹ ہو چکی ہے لیکن اس کے لئے ہمارے حکمرانوں کو امریکہ سے خلاصی پانا ہو گی۔ اگر وہ اب نہیں کرتے تو پھر عوام کو امریکہ کے غلام ڈرپوک حکمرانوں سے جان چھڑانا ہو گی۔
No comments:
Post a Comment