ا 30 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے تاریکی اور ظلمات میں ڈوبے ہوئے سینے دین اسلام کے نور سے منور ہو جاتے ہیں۔ ہم پاکستانی مسلمانوں کے عمومی کردار و اطوار اور اعمال و افعال کو دیکھ کر کوئی بھی غیر مسلم ان جیسا بننے سے دور بھاگے گا تاہم معاشرے میں موجود وہ لوگ غیر مسلموں کیلئے کشش ضرور رکھتے ہیں جن کی زندگیاں اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ ہیں۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر ہی عموماً غیر مسلم اسلامی تعلیمات کی طرف راغب ہوتے ہوئے اور سچائی کی روشنی واضح ہونے پر دین حق قبول کر لیتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں متواتر غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے کی رپورٹس آتی رہتی ہیں۔ ان رپورٹس میں مبالغہ آرائی تو ہو سکتی ہے اس قسم کی جھوٹی ہرگز نہیں جیسی افغانستان میں لاکھوں افغانیوں کے عیسائیت قبول کرنے کی اُڑائی جا رہی ہیں۔ افغانستان میں صرف ایک افغان نے عیسائیت قبول کی اسے جان کے لالے پڑے تو گورے اپنے دیس لے گئے۔ ایک مسیحی مبلغ نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ سال پاکستان میں چار ہزار مسلمانوں کو بپتسمہ دیا گیا اس دعویٰ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پاکستان میں ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں جو کہے کہ وہ مسلمان سے مسیحی بنا ہے تاہم معروف نو مسلموں کی ایک لمبی فہرست ہے اور پاکستان میں بھی ایسے بہت سے لوگ موجود میں جو دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور اس کا فخریہ اظہار بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں نومسلموں کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کا ادراک ہم مسلمانوں کو کم کم ہی ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
چند روز قبل ایک نو مسلم کی روداد غم و الم سُن کر حاضرین کے دل آزردہ ہوئے۔ شالامار لاہور کے عبدالوارث نے مکمل ریسرچ کے بعد اسلام قبول کیا۔ اس نے 5 سال تک اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کیا تھا۔ اس پر اسلام کی حقانیت کا در وا ہُوا تو سامنے ایک اور امتحان‘ دیوبندی، بریلوی، شیعہ اور وہابی دریچوں کی صورت میں موجود تھا۔ اس آزمائش کا سامنا ہر نومسلم کو کرنا پڑتا ہے، دین اسلام میں داخل ہونے کی پاداش میں خاندان والے گھر سے اور برادری دل سے نکال دیتی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کی طرف سے پذیرائی نہ ہو تو بہت سے لوگ واپس اپنے مذہب کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی مدرسے میں نومسلموں کی رہنمائی کے لئے نصاب موجود نہیں۔ اپنے طور پر نومسلم جو تعلیم حاصل کرتا ہے وہ اسے آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا دیتی ہے۔ پاکستان میں جانوروں کے تحفظ کے لئے ادارے موجود ہیں، نومسلموں کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری کوئی ادارہ نہیں۔ نومسلموں کو خیرات نہیں چاہئے ان کے معاشی اور معاشرتی معاملات آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ شادی کے حوالے سے عبدالوارث بتا رہا تھا کہ اس کی آٹھ جگہ رشتے کی بات ہوئی سب نے تعلیم، کردار اور شکل و صورت کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کیا تاہم نومسلم ہونے کے باعث بات آگے نہ بڑھ سکی۔ ایک درس میں مولانا صاحب نے بچیوں سے ان کا ذکر کیا تھا ایک لڑکی نے اپنی والدہ سے بات کی، دونوں نے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا دین کی خاطر دونوں میں قربت ہو گئی۔ عبدالوارث جس عزم اور راسخ عقیدے کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہُوا اس کا عقیدہ ہر گززتے دن کے ساتھ پختہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس نے خود کو پیش آنے والی مشکلات کے پیش نظر ”حقوق الناس“ کے نام سے نومسلموں کی ویلفیئر کے لئے تنظیم کی تشکیل کے لئے پروفیسر محمد یحیٰی، صوفی محمد اکرم اور دیگر شمع رسالت کے پروانوں کا ساتھ دیا۔ اس ادارے میں 43 نومسلم زیر تربیت ہیں جن میں 13 خواتین بھی ہیں لیکن صرف محدود وسائل میں ادارہ سینکڑوں ہزاروں نومسلموں کی اسلامی خطوط پر تربیت نہیں کر سکتا۔ اس حوالے سے ہر مسلمان کو اپنا کردار ادا اور فریضہ ادا کرنا چاہیے خصوصی طور پر مدارس آگے آئیں۔ مذہبی تنظیمیں بھی کوششیں کریں۔ نومسلموں کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پر کام کیا جا سکتا ہے۔ معلومات کے لئے عبدالوارث سے 03214115721 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment