منگل ، 05 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
قطرے قطرے سے دریا اور تنکے تنکے سے آشیاں بنتا ہے۔ بے حساب‘ بلاضرورت اور آمدن سے اخراجات ہوں تو دولت سے بھرے کنویں بھی خالی ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی دولت پر سانپ بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ جبکہ قومی دولت لوٹنے‘ لٹانے اور اجاڑنے میں بڑی دیدہ دلیری اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ قومی خزانے کو امانت سمجھا جائے تو یہ صدا بہار اور ہرا بھرا رہتا ہے۔ اسے مال غنیمت سمجھ کر سمیٹا جائے تو اکاس بیل زدہ درخت کی طرح اس کی جڑیں اور برگ و بار خزاں رسیدہ ہو جاتے ہیں۔ احساس ہو، ادراک ہو اور خود احتسابی کا پاس ہو معاملات سدھرتے چلے جاتے ہیں۔ قوم قدم قدم ساتھ ہوتی ہے خدا کی رحمت بھی شامل حال ہو جاتی ہے۔ باالکل اسی طرح جیسے ایران کے حوالے سے باالکل نمایاں ہے۔۔۔ محمود احمدی نژاد دوسری ٹرم کےلئے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے سیاسی سفر کی ابتدا بطور کونسلر کی۔ دیانت‘ صداقت اور سادگی کے باعث وہ صدر کے عہدے پر جا پہنچے۔ ایک ٹرم میں ایرانیوں نے ان کو آزما لیا۔ اسی بناءپر دوبارہ صدر بنا لیا۔ صدارتی دفتر میں پہلے روز گئے تو دوپہر کو ایک ملازم نے آکر کہا جناب کھانا لگ چکا ہے تشریف لائیے۔“ نژاد نے پوچھا ”کس لئے“؟.... ”جناب آپ کیلئے“ ملازم کا جواب تھا.... محمود احمدی نژاد نے ایک طرف پڑے ٹفن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”کھانا تو میں گھر سے لے کر آیا ہوں‘ مجھے اپنی اہلیہ کے ہاتھ سے بنے کھانے سے زیادہ کسی دوسرے کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا لذیز نہیں لگتا۔ حکومت ایران نے مشاہرہ مقرر کر دیا ہے۔ کھانا اسی سے کھاوں گا۔ قومی خزانے سے نہیں“ آج بھی ایرانی صدر اپنا کھانا گھر سے لاتے ہیں ان کی دیکھا دیکھی ایوان صدر کا عملہ بھی اپنے صدر کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ اس تازہ واقعہ سے تو سب آگاہ ہیں کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے ایرانی صدر امریکہ گئے تو پورا ہفتہ ایک ہی لباس زیب تن رہا۔ پوری دنیا سے آئے سربراہان مملکت یا ان کی نمائندگی کرنے والے ”شرفا“ میں سے بعض دن میں تین تین بار سوٹ اور ٹائیاں تبدیل کرتے رہے۔ اگر کارکردگی کا انحصار سوٹوں اور بوٹوں پر ہوتا تو ان میں سے بھی کسی کو بھرپور میڈیا کوریج ملتی۔ محمود احمدی نژاد کا نام اجلاس کے دوران ان کی جرات مندانہ تقریر کے باعث پوری دنیا میں گونجتا رہا۔ حتیٰ کہ وہ امریکی جن کی غلامی پر کئی ممالک کے ”غربا“ فخر کرتے ہیں وہ محمود احمدی نژاد کے کاٹ دار خطاب کی تاب نہ لا کر اجلاس سے جھکی نظروں اور گردنوں کے ساتھ نکل گئے۔ ہمارے وزیر خارجہ کا رزق برق لباس بھی قابل دید تھا لیکن ”کرشنا“ کی کشمیر پر یاوہ گوئی کے بعد کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔ ٹونی بلیئر کہتے ہیں کہ وہ 20 سال سے ایک ہی جوتا استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں۔ ان کی تنخواہ آج بھی لاکھوں پاونڈز میں ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے یا سرکاری پیسے کا بے دریغ استعمال کیا جائے۔
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیراعظم ہاوس کے ملازمین کے کھانے پر 59 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ آڈٹ میں یہ بے عملی ثابت ہوئی تو اس پر بڑی خوبصورتی سے خوشبودار مٹی ڈال دی گئی۔ مردار پر پرفیوم اور عطر جھڑکنے سے اس کی سڑاند اور بدبو ختم نہیں ہو جاتی۔ وزیراعظم نے تو اخراجات میں کمی کا اعلان کیا تھا۔ اس پر عمل، کجا اخراجات میں مزیدذ اضافہ کر دیا گیا۔ قومی خزانہ اول تو بڑا ناتواں ہے۔ اگر بھرا ہوا بھی ہے تو ایسے کمالات سے اسے ضعف نہ پہنچایا جائے۔ صدر‘ وزیراعظم‘ گورنرز اور وزرائے اعلیٰ اگر گھر سے کھانا لانا شروع کر دیں تو یہ ایک قابل تقلید روایت‘ رواج اور ریت ثابت ہو گی! قطرے قطرے سے دریا اور تنکے تنکے سے آشیاں بنتا ہے۔
No comments:
Post a Comment