جمعۃالمبارک ، 08 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
پیر صاحب بھرچونڈی شریف کے عقیدت مندوں کی مجلس میں پروفیسر اسرار بخاری بھی موجود تھے، اسی مجلس میں تھوڑی دیر بعد ایک مفلوک الحال شخص بھی شامل ہو گیا۔ وہ کچھ بے چین اور بے قرار دکھائی دے رہا تھا۔ پیر صاحب نے اس کی اضطراری حالت کو بھانپتے ہوئے پوچھا ’’نوجوان کیا بات ہے پریشان دکھائی دیتے ہو۔‘‘ اجنبی نے کہا ’’جناب، سید ہوں۔ گھر میں بھوک کے ڈیرے ہیں۔ آپ کے پاس مدد کے لئے حاضر ہوا ہوں‘‘ پیر صاحب اس شخص کی بات سنتے ہی جھٹکے سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اپنے اوپر اوڑھی ہوئی اجرک اپنے سامنے بچھا کر اسے بڑے احترام سے اس پر بٹھا دیا۔ خدمت گاروں کو حکم دیا کہ اسے ایک گھوڑا، گندم، گھی اور دیگر ضروریات دے دی جائیں ۔سارا سامان تیار ہوگیا تو پیر صاحب نے اسے بڑے احترام سے رخصت کرتے ہوئے فرمایا ’’آتے جاتے رہا کرو‘‘ اس ضرورت مند کی روانگی کے بعد ایک مرید نے کہا پیر سائیں ’’آپ کو پتہ ہے یہ شخص کون تھا؟‘‘ پیر صاحب نے فرمایا ’’نہیں۔ لیکن ہمیں اس کے بارے میں جاننے اور آپ کو بتانے کی ضرورت بھی نہیں، اس نے جس نسبت سے بات کی ہم نے اس کا احترام کیا۔‘‘
برصغیر کے مسلمان ارض مقدس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے دل کی گہرائیوں سے محبت رکھتے اور احترام کرتے ہیں۔ خواہ وہ مٹی ہی کیوں نہ ہو، حجۃ الوداع کے موقع پر حضورؐ نے فرمایا کہ نبوت کا در بند ہو چکا ہے اب نبیوں کا کام آپ نے کرنا ہے یہیں سے ہزاروں بعض روایات کے مطابق سوا لاکھ صحابہ تبلیغی مشن پر روانہ ہو گئے۔ ان میں سے کچھ اس وقت اور ان کی اولادیں بعد میں برصغیر آئیں، کچھ محمد بن قاسم کے ساتھ آئے ۔ان بزرگوں نے اپنے کردار، تعلیمات، اخلاقیات اور ریاضت سے ظلمت کدے میں حق و سچ کی شمع روشن کی۔ اس کی ضوفشانی سے لوگوں کے تاریک سینے منور ہوتے چلے گئے۔ بزرگان دین نے حضورؐ کے سونپے گئے مشن کا حق ادا کر دیا۔ آج برصغیر میں نصف ارب کلمہ گو افراد انہی بزرگوں کی محنت اور عظمت کردار کا شاخسانہ ہے۔ ان بزرگوں کی خدمات کا نو مسلموں اور ان کی اولادوں نے دل و جان سے احترام کیا۔ ان کی تکریم اور تعظیم میں کوئی کسر نہ چھوڑی، پرستش کی حد تک عقیدت کا اظہار کیا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بات احترام و عقیدت تک ہی نہیں جان نثاری سے بھی کبھی دریغ نہ کیا۔ اپنا تن من دھن ان بزرگوں اور ان کی اولادوں پر قربان کرنے سے کبھی احتراز نہیں کیا۔ اپنی جائیدادیں ان کے نام کر دیں۔ خدا نے بزرگان دین کی قبروں کو اندر سے روشن کیا، عقیدت مندوں نے باہر سے بقعہ نور بنا دیا ان کے مزار آج بھی مرجع خلائق ہیں جن پر گدی نشینی کا سلسلہ جاری ہے۔ بہت سے مزارات سے فیض کا عام ہے۔ شریعت کی پابندی کی جاتی ہے کچھ گدی نشین دنیاوی چکاچوند سے متاثر ہو کر خانقاہوں اور مزارات نکلے۔ حلیہ اور لباس بدلہ ،داڑھیاں صاف، جبہ و دستار اتار دی ۔ ایک ہی پیکر پر دو چہرے سجائے۔ ایک گدی نشینی کا دوسرا دنیاداری کا، سیاست میں کودے، مال و دولت کی کمی نہیں تھی الیکشن لڑے۔ جیتے، اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔ پھر دولت کے پہلے سے کئی گنا زیادہ انبار لگائے۔ حسینیت کا راستہ چھوڑا، مفادات سے رشتہ جوڑا۔
امریکہ اور یورپ کے کچھ ممالک میں نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کا سلسلہ شروع ہے۔ توہین آمیز خاکے بنتے ہیں۔ قرآن کریم جلانے کے منصوبے بنائے اور ان پر عمل بھی کر دیا جاتا ہے۔ مغرب کے ایسے سنگ دلانا اور مسلم دشمنی پر مبنی اقدامات پر ہر مسلمان کے اندر ایک بھانبڑ مچا ہے۔ اس کے ساتھ شاتمان رسول کے گریبانوں تک نہیں پہنچ سکتے جن کے پہنچ سکتے ہیں وہ خاموش ہیں۔ امام عالی مقام نے نانا کی حرمت پر اپنی جان نچھاور کر دی ان کی اولاد ہونے پر فخر کرنیوالوں کو چپ لگی ہے۔ گیلانی، قریشی، ہاشمی، پیر مشرف، سید الطاف بااثر لوگ ہیں ان کی آواز دنیا سنتی ہے مجال ہے ان کی طرف سے توہین آمیز خاکوں اور قرآن جلانے کے اقدامات کی مذمت کی گئی ہو۔ یہ تو ایسے اقدامات پر دنیا میں زلزلہ برپا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بُت بنے ہوئے ہیں عوام ان کے کردار سے مایوس لیکن خاموش ہیں ان کی نسبت کی وجہ سے۔
No comments:
Post a Comment