17-10-10
فضل حسین اعوان ـ
مفروضوں پر رائے قائم کرنا۔ اسے حتمی قرار دیکر عمل پیرا ہونے کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔ علی احمد کرد کی رائے میں سپریم کورٹ کے ججوں کو رات ایک ڈیڑھ بجے ہنگامی اجلاس طلب نہیں کرناچاہیے تھا۔ گو سپریم کورٹ نے ایک سخت فیصلہ دیا ہے کہ ججوں کو ہٹانا آئین توڑنے کے مترادف ہوگا اور یہ بھی کہا ہے کہ ایگزیکٹو آرڈر واپس نہیں لیا جاسکتا۔ لیکن یہ شاید کبھی ثابت نہ ہو کہ حکومت نے ایگزیکٹو آرڈر واپس لینے کا کوئی فیصلہ کیا تھا۔اس صورت میں بھی کہ فیصلہ ہوچکا تھا۔ یہ توواضح فیصلوں کو روند ڈالتے ہیں مذکورہ فیصلہ تو ابھی پائپ لائن میں تھا۔ ان حالات میں جب ملک بحرانوں میں دھنسا ہوا ہے۔ پوری قوم حکومت کی پالیسیوں سے بیزار ہے اور عدلیہ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ حکومت عدلیہ پر شب خون مارنے کی جرأت نہیں کرسکتی۔ اگر حکومتی حلقوں کی جانب سے ایسا ہوا ہے تو یہ ان کے ذہنی خلفشار اور انتشار کی غمازی کرتا ہے اور ڈر لگا رہتا ہے کہ معاملات واقعی ذہنی مریضوں کے ہاتھوں میں تو نہیں آگئے؟
عمومی تاثر ہے کہ لوگ حکمرانوں کے چہرے دیکھ دیکھ کر تنگ آجاتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر حکمران خود کو عوام کا بڑا، خیر خواہ اور مخلص ثابت کریں تو لوگ یقینا ان سے محبت کریں۔ عموماً صاحبان اقتدار عوام سے دوری اختیار کرلیتے ہیں۔ ہر معاملے میں واضح فاصلہ اور فرق روا رکھا جاتا ہے۔ آج کی حالت ملاحظہ فرمائیے۔ ملک میں کونسا بحران ہے جو نہیں ہے۔ یہ سب حکمرانوں کے پیداکردہ ہیں ملکی پیداوار چینی 80روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔ گزشتہ ماہ ٹماٹر ڈیڑھ سو روپے کلو تک فروخت ہوتے رہے سبزی اوردالیں بھی فی کلو 100تک پہنچادی گئیں گو یہ چیزیں سیاستدان اور حکمران نہیں بیچتے لیکن ان پر کنٹرول تو انہوں نے کرنا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے ہرپاکستانی تنگ ہے۔ بھارت کے ساتھ معاملات میں بزدلی کا مظاہرہ کیاجاتا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل سستا ہو تو بھی پاکستان میں اس کی قیمت ماہ بہ ماہ بڑھا دی جاتی ہے۔ اوپر سے قلت بھی رہتی ہے۔ پوری قوم امریکی جنگ کا ایندھن بن رہی ہے۔ عدلیہ کو آگے لگایا ہوا ہے۔ وزیراعظم نے جو کہا عدلیہ کہتی ہے لکھ دیں جواب میں کہا جاتا ہے وزیراعظم مصروف ہیں۔
ایسے حالات پیدا کرنے کا جو بھی ذمہ دار ہے کیا عوام اس کے صدقے واری جائیں گے۔ اس کے باوجود بھی جمہوریت اہم ہے۔ اگر جمہوریت ایک تماشا ہے تو یہ لگا رہنے دیا جائے اگر کھیل ہے تو کھیلنے دیاجائے اگر نظام ہے تو چلنے دیاجائے۔ پاکستان ہمیشہ رہنے کیلئے بنا ہے اور انشاء اللہ قائم رہے گا ۔ جمہوریت اس کا مقدر ہے البتہ جمہوریت کبھی کبھی بازاری لوگوں کے پاس آکر چلّا اٹھی ہے۔ ’’ مجھے بچائو‘‘ اسے بچانا بھی جمہوری اور سیاسی انداز میں چاہیے۔ اگر آج سیاستدانوں کو راہِ راست پر لانے کیلئے کوئی مہم جوئی کی جاتی ہے جس کیلئے کچھ لوگوں کے دلوں میں بے پایاں خواہش بھی مچلتی ہے تو 8دس سال بعد ہمیں پھر جمہوری سفر یہیں سے شروع کرنا پڑے گا… جمہوریت کا سفر جاری رہتا ہے تو بھٹکے مسافر بھول بھلیوں میں کھوتے ہوئے بالآخر صحیح ڈگر پر آنکلیں گے۔
برطانیہ میں حکومتی مدت کبھی 7سات ہوا کرتی تھی۔ جو جمہوری روایات کے حامل معاشرے نے 5سال کردی۔ دیگر بہت سے ممالک میںبھی یہی مدت ہے۔ البتہ امریکہ سمیت کئی ممالک میں 4سال بھی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے 93کے الیکشن کے دوران نعرہ لگایا کہ وہ اقتدار میں آئیں تو اسمبلیوں کی مدت4سال کردیں گی۔ وہ اقتدار میں آگئیں تو سیاستدانوں کی طرح اپنا وہ وعدہ بھول گئیں جس سے ان کی حکومت کی مدت ایک سال کم ہوجاتی۔ تاہم ان کی حکومت ان کے اپنے جیالے صدر نے چارسال مکمل ہونے سے بھی پہلے ختم کردی تھی۔ سیاستدانوں کی خرافات، ایک دوسرے پر الزامات اور زہر ناک بیانات کے باوجود بھی جمہوریت جیسی بھی ہے چلتی رہنی چاہیے۔ موجودہ حالات کے پیشِ نظر اگر حکومت اور اسمبلیوں کی مدت4 سال کردی جائے تو پاکستان میں جمہوریت کے دوام کیلئے یہ بہتر ثابت ہوگی۔ جمہوری کلچر مستحکم ہوجانے پر پھر سے 5سال کی جاسکتی ہے قوموں کی زندگی میں'50 60سال کوئی طویل عرصہ نہیں ہوتا۔ قیام پاکستان کے بعد اگر جمہور ی سفر جاری رہتا تو یقینا پاکستان مضبوط اور ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہوتا۔اگلے 50,60 سال میں بھی ہم ایک مضبوط جمہوری معاشرہ بن جاتے ہیں تو یہ کوئی طویل مدت نہیں ہے۔ جمہوریت مضبوط اسی طور ہوسکتی ہے کہ اسے چلنے دیاجائے۔ اس پودے کی خلوص کے ساتھ آبیاری کی جائے اور اسے آمریت کی لو اور تھپڑوں سے بچایا جائے۔
No comments:
Post a Comment