About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, October 28, 2010

مسلم لیگوں کا اتحاد، بڑے میاں اور چھوٹے چودھری اپنی ادا¶ں پر غور کریں


جمعرات ، 28 اکتوبر ، 2010
مسلم لیگوں کا اتحاد، بڑے میاں اور چھوٹے چودھری اپنی ادا¶ں پر غور کریں
فضل حسین اعوان ـ
کرپشن کے الزامات پر 1930 کی دہائی کے آخر میں پولیس سروس چھوڑنا پڑی تو چودھری ظہور الٰہی نے اپنے بھائی چودھری منظور الٰہی کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا، جسے خدا نے بھاگ لگائے۔ 50 کی دہائی میں چودھری ظہور الٰہی نے پاکستان کی سیاست میں قدم رکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ڈیڈی ایوب خان کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کیا تو اسے کنونشن لیگ کے خلاف بھی بغاوت سمجھا گیا۔ اس وقت چودھری ظہور الٰہی کنونشن لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے انہوں نے بھٹو کی مخالفت کی تھی جس کی پاداش میں بھٹو دور میں چودھری ظہور الٰہی کو قید و بند اور جائیداد کی ضبطی جیسے مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بھٹو صاحب ضیائی مارشل لا کے شکنجے میں آئے اور بالآخر تختہ دار تک جا پہنچے۔ چودھری ظہور الٰہی نے ضیاالحق سے وہ قلم تحفتاً مانگ لیا جس سے انہوں نے بھٹو کی پھانسی پر دستخط کئے تھے۔ یہ قلم آج بھی چودھری ظہور الٰہی کے صاحبزادے چودھری شجاعت کے گھر میں دیگر تحائف کے ساتھ شوکیس میں پڑا ہو گا۔ 25 ستمبر 1981ءکو لاہور میں مولوی مشتاق کے ساتھ گاڑی میں سفر کے دوران چودھری ظہور الٰہی کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ چودھری شجاعت کے ساتھ ساتھ چودھری منظور الٰہی کے صاحبزادے چودھری پرویز الٰہی بھی پیپلز پارٹی کو چودھری ظہور الٰہی کا قاتل قرار دے چکے ہیں۔ 2008ءکے عام انتخابات کے دوران تو ق لیگ نے پیپلز پارٹی کے مقابل آنے کی مہم شروع کر رکھی تھی، ق لیگ پیپلز پارٹی کو ملک دشمن اور غداروں کا ٹولہ قرار دیتی تھی۔ بینظیر بھٹو نے پاکستان آمد سے قبل کہہ دیا تھا کہ ان کو کچھ ہوا تو پرویز الٰہی بھی اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ 
25 اکتوبر 2010 کو لاہور میں پیپلز پارٹی کے نمائندے بابر اعوان چودھری پرویز الٰہی سے ملے، ون ٹو ون ملاقات ہوئی پھر وفود بھی ملاقات میں شامل ہو گئے، قومی عوامی اور جمہوری معاملات پر تعاون جاری رکھنے کے عہد و پیمان ہوئے۔ پرویز الٰہی نے فرمایا انتخابی تعاون خارج از امکان نہیں، یہ نہیں بتایا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کا انتخابی تعاون کس کا؟ مسلم لیگ ق کا؟ اس کے سربراہ تو چودھری شجاعت تھے جو ق لیگ کو پیر پگاڑہ کی سرپرستی میں بہت سی مسلم لیگوں کے ساتھ ضم کر آئے تھے۔ پھر پرویز الٰہی کس پارٹی کی بات کرتے ہیں؟ کیا انہوں نے مسلم لیگ ق کا کوئی الگ گروپ بنا لیا ہے؟ 
ضیاالحق کے قلم اور ظہور الٰہی کے قتل کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھٹو اور ظہور الٰہی کے وارثوں کا ایک پلیٹ فارم سے سیاست کرنا آگ اور پانی کے ملاپ کے مترادف ہے۔ یہ اتحاد دونوں لیجنڈز کے وارثوں کے مابین نہیں ہوا۔ پرویز زرداری لیگ میں بھٹو کے ورثا شامل ہیں نہ چودھری ظہور الٰہی کے، یہ بیل منڈھے چڑھی تو اتحاد چودھری منظور الٰہی اور حاکم علی زرداری کے صاحبزادگان کے مابین قرار پائے گا۔ 
تاریخ صدیاں گزرنے کا ہی نام نہیں، ہرگزرا لمحہ تاریخ بن جاتا ہے اور ہر کردار فنا کے بعد بھی اپنے افعال کے حوالے سے زندہ رہتا ہے۔ ٹیپو سلطان، سراج الدولہ، علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ جیسے رہنما ¶ں کو لوگ ان کے اعلیٰ کردار و اعمال کے باعث عزت و احترام سے یاد کرتے ہیں جبکہ میر جعفر، میر صادق اور قیام پاکستان کے مخالف کئی کرداروں پر تھو تھو ہوتی ہے۔ آج کی سیاست میں کردار کے غازی کم گفتار کے غازی بے شمار ہیں لیکن گفتار کے غازی تاریخ کے پہیے کو الٹا نہیں گھما سکتے۔ میر جعفر، میر صادق کی نسلوں نے کبھی اپنے آباءکے کارناموں پر فخر کیا ہے؟ ان غداروں کی اگر کہیں نسل ہے بھی تو گمنام۔ ان نسلوں نے اپنے اب و جد کے ناموں سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ آج کے گفتار کے غازی بھی سوچ لیں وہ اپنی نسلوں کو کونسا اثاثہ منتقل کر کے جا رہے ہیں۔ 
پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا ہر پاکستانی کے دل میں احترام پایا جاتا ہے۔ اس جماعت کو ہر ڈکٹیٹر نے اپنی ڈھال کے طور پر اور اقتدار کو طول دینے کے لئے استعمال کیا۔ آمروں کے ہتھے چڑھی مسلم لیگ کا کوئی اعتبار رہا یا نہیں البتہ ہر پاکستانی اسے آج بھی اقبال اور قائد کی مسلم لیگ سمجھتا ہے اسے اس سے غرض نہیں کہ یہ کونسی لیگ ہے ن ہے یا ق، ف ہے یا چ، ج ہے یا ض، سوائے مشرف لیگ کے، انتخابات کے روز وہ کسی بھی مسلم لیگ کو ووٹ دان کر دیتا ہے۔ عام آدمی کو اس سے بلا دعویٰ محبت ہے۔ اس سے محبت کے دعویداروں نے اسے اپنی انا اور مفاد کے لئے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ مسلم لیگی دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے دو سنہری مواقع تھے جو عاقبت نااندیش سیاستدانوں نے گنوا دیے۔ پہلا موقع 2008ءکے انتخابات سے قبل اور فوری بعد تھا جو کچھ لوگوں کی انا کی بھینٹ چڑھ گیا، دوسرا رواں ماہ پیر پگاڑہ کی سرپرستی میں مسلم لیگوں کے اتحاد کی کوشش، جس میں بڑی حد تک کامیابی بھی ملی سوائے مسلم لیگ ن کے تمام مسلم لیگی دھڑے ایک مسلم لیگ کے جھنڈے تلے آ گئے تھے جہاں مسلم لیگوں کے مکمل اتحاد کے خواب کو میاں نواز شریف کی انا اور ناں نے بکھیر کے رکھ دیا وہیں اقتدار کی چوٹی سر کرنے کے شوق میں پرویز الٰہی نے چکنا چُور کر دیا۔
(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment