About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, October 4, 2010

بابری مسجد .... بنئے کا انصاف

 3-10-10
فضل حسین اعوان ـ
افلاطون نے شہرہ آفاق تصنیف ”ری پبلک“ میں سقراط اور تھریسی میکس کی گفتگو بھی قلمبند کی ہے۔ سقراط 473ءاور تھریسی میکس 459ءقبل مسیح میں پیدا ہوا۔ آج سے دو اڑھائی ہزار سال قبل تھریسی میکس نے انصاف کی یوں تعریف کی تھی:
"Justice is the advantage of stronger and that injustice, if it is on a large enough scale, is stronger, freer, and more masterly than justice"
اسکا آسان مطلب ہے ”انصاف کا مطلب جس کی لاٹھی اسکی بھینس اور ناانصافی اگر وسیع پیمانے پر ہو تو زیادہ طاقتور، آزاد تر اور انصاف کی نسبت زیادہ مکمل ہوتی ہے“۔ سقراط نے تھریسی میکس کو انصاف کے ان مطالب و مفاہیم پر قائل کرنے کی کوشش کی جو آج بھی انصاف کی آئیڈیل کتابوں میں ملتے ہیں۔ تھریسی سقراط کے فلسفے سے متاثر ہوا یا نہیں، آج دنیا کا سب سے بڑا مہذب ہونے کا دعویدار امریکہ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر سٹیٹ کے زعم میں مبتلا بھارت سمیت بہت سے ممالک میں تھریسی میکس کا فلسفہ ہی روبہ عمل ہے۔ امریکہ کے ججوں نے عافیہ صدیقی کو اس جرم میں 86 سال قید سنا دی کہ اس نے امریکی فوجیوں پر بندوق تانی تھی۔ اگر عافیہ کے کیس کو بنیاد بنا کر انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں تو عراق اور افغانستان میں 25 لاکھ افراد کے قتل کے جرم میں امریکہ اور اتحادیوں کی افواج، انکے صدور، وزرائے اعظم سمیت تمام تر کابینہ کے ممبران 86، 86 بار پھانسی یا زندہ جلا دینے کی سزا کے مستوجب ٹھہریں گے۔
بھارت نے تو انصاف کے منہ پر جس طرح کالک ملی ہے اسکی مثال شاید ہی تاریخ کے اوراق میں کہیں موجود اور محفوظ ہو۔ الٰہ آباد ہائیکورٹ کے تین جنونی ججوں نے انتہاپسند ہندوﺅں کے حق میں فیصلہ دیکر بھارت میں موجود 25 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے پونے دو ارب اسلام کے نام لیواﺅں کے ایمانی جذبات کا خون کردیا۔ مغل حکمرانوں نے مذہبی رواداری کی بنیاد پر ہی برصغیر میں ہندوﺅں کی اکثریتی آبادی پر ہزار سال حکومت کی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بابر نے مندر کی جگہ یا رام کی جنم بھومی پر مسجد تعمیر کردی ہو۔ ایسا ہوتا تو آج، یا کم از کم مغل دورِ حکومت میں ہندوستان میں ایک بھی مندر موجود نہ ہوتا۔ سیکولر انڈیا کو تو اقلیتوں کے حقوق کی اکثریت سے بڑھ کر حفاظت کرنا چاہئے لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کو تعصب کی بناءپر زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ انکی عبادتگاہوں کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔ بابری مسجد کے حوالے سے انتہاپسند اور شرپسند ہندو جنونیوں کی خواہش پر 30 ستمبر کو دئیے گئے فیصلے کے سوا کسی دوسرے فیصلے کی امید کم ہی تھی اس فیصلے سے انصاف کا منہ کالا کردیا گیا۔ یہی نہیں بھارت میں معاملہ بابری مسجد کا ہو یا گﺅ کشی کا، یونیفارم سول کوڈ کا ہو یا تعلیمی حقوق کا، بھارتی عدالتوں کی طرف سے فیصلہ ہمیشہ ہندوﺅں کی حمایت اور مسلمانوں کی مخالفت میں ہی آتا ہے۔
6 دسمبر 1992ءکو بابری مسجد میں جو پوجا کے نام پر دہشت گردی ہوئی اسکی اجازت بھارتی سپریم کورٹ نے دی تھی۔ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی منافقت کی مالا جپنے والے کچھ پاکستانیوں کے بھائی واجپائی نے سپریم کورٹ کی طرف سے کار سیوکوں کو پوجا کی اجازت دینے پر کہا تھا کہ وہاں تو نوکیلے پتھر ہیں، پوجا کیلئے ان کو ہٹانا ضروری ہے۔ واجپائی کا اشارہ گنبد کے نوکیلے پتھروں کی جانب تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ کی ایماءاور واجپائی انگیخت پر ہی بپھرے ہوئے لاکھوں ہندوﺅں نے بابری مسجد کو نقصان پہنچایا تھا۔
ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف مسلمانوں نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ وہاں سے بھی خیر کی توقع نہیں ہے۔ 25 کروڑ مسلمان بڑی طاقت ہیں۔ یہ سکھوں اور نچلی ذات کے ہندوﺅں کو ساتھ ملا کر کیوں نہ ایک اور پاکستان، نیا خالصتان اور
ہندوستان کے قیام کیلئے جدوجہد کریں۔ اسی میں انکی بقاءاور جنونیوں سے چھٹکارے کا سامان بھی ہے۔
آ

No comments:

Post a Comment