18-10-10
فضل حسین اعوان
دنیا کا بیک وقت مشکل اور آسان ترین کام بھیک مانگنا ہے۔ بھیک مانگنے کا ارادہ باندھنے سے بھکاری کے درجے پر فائز ہونے تک کا راستہ ہی کٹھن ہے۔یہ منزل طے ہو جائے تو پھر کوئی مشکل باقی نہیں رہتی، گویا گوہر مقصود ہاتھ آ گیا۔ مانگنا بھی ایک نشہ ہے۔ جس کو یہ لگ گیا پھر چھوٹتا نہیں ہے۔ کوئی دعا دے کر مانگتا ہے۔ کوئی نہ ملنے پر بددعا دیتا ہے، کوئی تڑی سے مانگتا ہے تو ہاتھ باندھ کر، کوئی ٹکے کا بھکاری، کوئی پانچ، دس، ہزار، لاکھ، کروڑ اور اربوں کا۔ کئی منگتے ہاتھ میں روپے دو روپے کا سکہ دیکھ کر منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں اور کہہ کر چل دیتے ہیں” اپنے بچوں کے کچھ لے جانا“۔ کئی اچک بھی لیتے ہیں۔ ایک فقیر نے ایک گھر پر صدا لگائی” خدا کے نام پر آٹا چاول دے دو“۔ گھر سے آواز آئی ”معاف کرو۔ نہیں ہے“۔ فقیر نے کہا ”روٹی دال دے دو“۔ جواب نہیں میں آیا تو کہا” چلو پانی ہی پلادو“۔ اس پر بھی ناں ہوئی تو فقیر نے کہا ” تو گھر میںکیا کرتے ہو۔ آﺅ میرے ساتھ مانگنے نکلو۔ یہ سنا تو خاتون خانہ نے غصے میں آکر باسی روٹی لا کر اس کے سامنے رکھ دی، فقیر کو کسی گھر سے آدھی کسی سے اس بھی کم روٹی ملی تھی، ٹکڑے جھولی میں پڑے تھے۔ اس نے روٹی کو غور سے دیکھا اور بولا” اس کی چینج (بھان) لینی ہے....؟۔ ایک بھکاری کو گاڑی والے نے ہاتھ پھیلانے پر ڈانٹتے ہوئے کہا” شرم نہیں آتی، مانگ رہے ہو،گبھرو ہو، نوجوان ہو، تنو مند ہو“۔ اس پر بھکاری بولا” دس روپے نہیں دینے تو گبھرو جوان کو رشتہ دے دو!“۔
گورنر مکہ کے پاس مرسڈیز میں ایک شخص آیا اوربتایا کہ ضرورت مند ہوں، 50 ہزار ریال کا سوال ہے۔ گورنر نے ادا کر دیئے۔ وہاں موجود لوگوں نے پوچھا” سوالی امیر کبیر لگتا تھا آپ نے اتنی رقم دیدی“ گورنر نے جواب دیا جو خود سوالی بن گیا، منگتا بن گیا، ہمیں اس کی تحقیق کرنے کی کیا ضرورت؟“۔۔۔شاہ فیصل اپنے محل میں تشریف فرما تھے ایک اجنبی نے آ کر اپنا تعارف کروایا اور ایک لاکھ ریال ضرورت کے لئے مانگے۔ شاہ فیصل نے اگلے ہفتے آنے کو کہا۔ وہ مقررہ روز آپہنچا اور اپنا سوال دہرایا۔ شاہ فیصل نے کہا” تم مستحق نہیں ہو۔ تمہاری فلاں فلاں جائیداد اور دو بیویاں بھی ہیں“۔ اس پر اجنبی نے کہا ”فیصل! ایک تو آپ نے میری مدد نہیں کی اوپر سے مجھے جھوٹا قرار دیا۔ میری جاسوسی بھی کروائی۔ حالانکہ نبی کریمﷺ نے ایسی ٹوہ لگانے سے منع کیا ہے۔ میں ابھی چلا جاتا ہوں لیکن آپ قیامت کے روز رسول اللہ کو کیا جواب دو گے“۔ اس پر شاہ فیصل نے اس شخص سے سر محفل معذرت کی۔ اسے عزت و احترام سے بٹھایا اور ضرورت پوری کر کے رخصت کیا۔
ٹکہ ٹکہ مانگ کر اکٹھا کرے یا 50 ہزار اور ایک لاکھ ریال بیک وقت پالے۔ بھکاری بھکاری رہتا ہے۔ اس کے سٹیٹس میں کوئی فرق نہیں آتا۔ رقم یا کسی بھی صورت میں کوئی جائیداد وغیرہ جو بغیر محنت کے آپ کی ہو گئی۔ وہ بھیک یا دھوکہ دہی ۔ ہمارے حکمران بیرون ممالک دوروں پر جاتے ہیں۔ ان کا ریڈ کارپٹ استقبال ہوتا ہے، بڑی آﺅ بھگت ہوتی ہے ۔بے شکن سوٹ زیب تن ہوتے ہیں۔ ساتھ گئے وزیر مشیر نوکروں کی طرح آگے پیچھے چلتے پھرتے ہیں۔ یہ کاسہ لیس اور حاشیہ بردار،لاکھوں روپے کرائے کی لیموزین پر سیریں کرتے ہیں۔ جب سربراہِ قافلہ کی اپنے ہم منصب سے ملاقات ہوتی ہے تو آہستگی سے اس کے سامنے کشکول کر دیا جاتا ہے۔ انہیں ”اللہ کے نام پر“ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ان کو زلزلے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا علم ہوتا ہے۔ وہ استطاعت کے مطابق کشکول میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ پوری دیانتداری سے قوم کی امانت کو اپنے ذاتی بنک اکاﺅنٹس میں محفوظ کرا دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی پابندیوں کی زد میں آیا ایران زمینی اور آسمانی مصیبت سے دوچار ہو تو دنیا سے امداد لینے سے گریز کرتا ہے۔ ہمارے حکمران آفات ارضی و سماوی کو بھی رحمت گردانتے ہیں۔ عذاب میں صرف عام لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کیلئے بھیک کے راستے کھل جاتے ہیں۔ خیرات منت کرکے لی جائے یا اکڑ کر ، جھولی بھرنے کے بعد اکڑفوں ختم ، ساتھ غیرت اور حمیت بھی۔غلامی کی زنجیریں ،دل دماغ اور عقل و شعور ،سب کوجکڑ لیتی ہیں۔پھر ان حکمرانوں کی وجہ سے ملک و قوم کی وہی حالت ہوتی ہے جو آج وطنِ عزیز کی ہے۔
No comments:
Post a Comment