16 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں جلسہ عام کے دوران 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کر دیا گیا۔ مناسب تحقیقات نہ ہونے کے باعث مجرم بچ نکلے۔ اس کے بعد سے سیاسی رہنمائوں کے قتل اور مجرموں کے بچ رہنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ جتنے پراسرار سیاسی قتل پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں ہوئے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوئے ہوں۔ اگر نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کرنے والوں کو بے نقاب کیا جاتا اور مجرموں کو سزا مل جاتی تو شاید قوم کو بہت سے قائدین کی بے وقت موت کے صدمے سے دوچار نہ ہوتا۔
نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد 9 مئی 1958ء کو پٹواری عطاء محمد نے صوبہ سرحد کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کو لاہور میں قتل کر دیا۔ 5 دسمبر 1963ء کو پاکستان کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی لبنان کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کو ان کو زہر دیا گیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد 8 جون 1972ء کو راجن پور میں قتل ہوئے۔ خواجہ رفیق کو بھی 20 دسمبر 1972ء کو لاہور میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اچکزئی قبیلے کے قوم پرست رہنما عبدالصمد اچکزئی 2 دسمبر 1973ء کو ایک بم کا نشانہ بنے۔ حیات محمد خان شیر پائو 8 فروری 1976ء کو دہشت گردی کی واردات میں مارے گئے۔ چودھری ظہور الٰہی 25 ستمبر 1981ء کو لاہور میں بے رحم قاتلوں کی فائرنگ کی زد میں آ گئے۔ فاضل راہو کو 7 جنوری 1987ء کو اپنے گائوں گولارچی سندھ میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 23 مارچ 1987ء کو دہشت گردی کی واردات علامہ احسان الٰہی ظہیر کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ رئیسانی قبیلے کے سردار غوث بخش رئیسانی 26 مئی کو کوئٹہ میں قتل ہوئے۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے رہنما علامہ عارف الحسینی کو 15 اگست 1988ء میں پشاور میں گولیوں کا نشانہ بنے۔ جنرل ضیاء الحق جنرل اختر عبدالرحمن اور ان کے تیس اہم ساتھیوں بمعہ امریکی سفیر اور جنرل رافیل کے 17 اگست 1988ء کو جہاز میں اڑا دیا گیا۔ صوبہ سرحد کے سابق گورنر جنرل فضل حق 11 اکتوبر 1991ء کو دہشت گردوں کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے عبوری سربراہ عظیم احمد طارق بھی اپنے گھر میں قتل کر دئیے گئے۔ حکیم محمد سعید 17 اکتوبر 1998ء میں کراچی میں قتل ہوئے۔ پاکستان سنی تحریک کی پوری قیادت کو 18مئی 2001ء میں دہشت گردی کی واردات میں مار ڈالا گیا۔ مولانا اعظم طارق 14 اکتوبر 2003ء میں اسلام آباد کے نزدیک قتل ہوئے۔ عمر اصغر خان 25 جون 2002ء کو کراچی میں بند کمرے میں مردہ پائے گئے۔ سابق وزیر خارجہ صدیق خان کانجو 2001ء کو ملتان میں قتل ہوئے۔ نواب اکبر خان بگٹی 26 اگست 2006ء کو ایک اپریشن کے دوران غار میں دبا دئیے گئے۔ غلام حیدر وائیں 20 اکتوبر 1993ء میں اپنے حلقے میں مسلح افراد کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔ مرتضیٰ بھٹو کو ان کی بہن کے وزارت عظمیٰ کے دور میں 1996ء کو پولیس نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ 27دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو کو اسی جگہ قتل کر دیا گیا جہاں نوابزادہ لیاقت علی خان 1951ء کو مار ڈالا گیا تھا۔
مذکورہ سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کے قتل کی تحقیقات اول تو مناسب طریقے سے ہوئی نہیں‘ ہوئی بھی تو اصل محرکات سامنے آ سکے نہ مجرم۔ مذکورہ قتلوں کے علاوہ بھی ملک میں قومی تباہی اور کوتاہی کے واقعات ہوئے۔ بے نظیر بھٹو نے ہمیشہ سچائی اور مصالحتی کمشن (truth and reconciliation comission) کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔ جو ہماری قومی تاریخ کا جائزہ لے اور نشاندہی کرے کہ کون کون سی اور کہاں کہاں غلطیاں
اور غفلت ہوئی۔ کمیشن یہ بھی جائزہ لے کہ قائداعظم اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی المناک اور کمپرسی کی حالت میں رحلت کیونکر ہوئی۔ قائدِ ملت لیاقت علی خان کا قتل، راولپنڈی سازش کیس، مشرقی پاکستان کی علیحدگی، اوجڑی کیمپ، کارگل مہم جوئی، سانحہ لال مسجد، اکبر بگٹی اور بے نظیر کی دردناک اموات جیسے تمام قومی سانحات کی تحقیق بھی کمشن کے دائرہ اختیار میں شامل ہو، تاہم اس میں وطن عزیز کے 32 سال برباد کرنے والے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرز کا محاسبہ بھی ہونا چاہئے۔ اس کا تعین بھی سچائی کمیشن کردے۔
No comments:
Post a Comment