About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, October 9, 2010

ٹرانزٹ ٹریڈ .... بھارت کیلئے معاہدہ

 ہفتہ ، 09 اکتوبر ، 2010ہ
فضل حسین اعوان ـ 
یک چشم روشن ویک چشم گل مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں موجودہ پاکستانی و بھارتی پنجاب کے ساتھ ساتھ کشمیر‘ گلگت‘ مغربی تبت کے کچھ علاقے‘ فاٹا‘ بنوں اور پشاور بھی پنجاب میں شامل تھے۔ پنجاب کی سرحدیں افغانستان سے ملتی تھیں۔ رنجیت سنگھ کا انگریزوں سے بڑا یارانہ تھا لیکن خود کو انگریزوں کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے اس نے ان سے ایک فاصلہ رکھا ہوا تھا۔ ایک بار انگریز نے مہاراجہ سے کہا کہ وہ اپنی فوج اور کچھ سامان ہندوستان سے افغانستان پہنچانا چاہتے ہیں۔ رنجیت سنگھ نے کہا بڑی خوشی سے لے جا ¶۔ انگریز نے پوچھا پنجاب سے راہداری چاہئے۔ مہاراجہ نے کہا ”مخول نہ کرو۔“ انگریز نے بہتیرا سر کھپایا لیکن رنجیت سنگھ نے ان کے مطالبے کو مخول سے زیادہ حیثیت نہ دی۔ انگریز دنیا میں جہاں بھی گئے‘ دوستی کی آڑ میں ان علاقوں کو گھن اور دیمک کی چاٹا۔ یلغار کی اور بالآخر جارحانہ قبضہ کر دیا۔ رنجیت سنگھ نے اونٹ کو خیمے میں منہ ہی نہ ڈالنے دیا‘ گھسنے کا سوال بعد میں پیدا ہونا تھا۔پاکستان کی مخالفت‘ مخاصمت اور دشمنی کے حوالے سے انگریز اور ہندو کا موازنہ کریں تو دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بنیے کےلئے پاکستان کا وجود قابل برداشت نہیں۔ پاکستان کی زراعت کا دار و مدار مقبوضہ کشمیر سے بہہ کر آنے والے دریا ¶ں کے پانی پر ہے۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا جو دشمن کے آہنی شکنجے اور پنجے میں ہے۔ وہ جب چاہتا ہے اس کے ذریعے پاکستان کو قحط سالی سے ہمکنار کر سکتا ہے اور جب مرضی ہو پاکستان کو سیلاب سے دوچار ہو سکتا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو اب تک وہ پاکستان کو کب کا ہڑپ کر چکا ہوتا۔ پاکستان کے پاس جدید ترین اور بھارت کے مقابلے میں کہیں معیاری اور اعلیٰ پائے کا ایٹمی اسلحہ ہے۔ اس لئے وہ جارحیت کے بجائے اپنے مقاصد سازشوں کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان کو دو لخت کر چکا ہے اس کے بعد باقی حصے پر بھی اس کی نظر بد ہے۔ اب وہ دوستی کی آڑ میں وار کرنا چاہتا ہے۔ کئی لوگ اس کے جھانسے میں آچکے ہیں۔ کوئی امن کی آشا کا راگ الاپ رہا ہے۔ کوئی دونوں حریف ممالک کو ویزا فری ممالک بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ کچھ سرحدیں مٹانے اور رکاوٹیں ہٹانے کے متمنی ہیں کئی کی سب سے بڑے تنازع کشمیر کے حل کے بغیر تعلقات کو عروج پر پہنچانے کی حسرت ہے۔ قوم مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت کے ساتھ کسی قسم کا لین دین نہیں کرنا چاہتی لیکن زمام اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن میں محمد شاہ رنگیلا‘ جنرل یحییٰ خان اور جنرل مشرف کی ساری خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ قومی غیرت و حمیت کا افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ کرکے ایک بار پھر جنازہ اٹھا دیا۔ 6 مئی 2009ءکو واشنگٹن میں اوباما کے بلا دے اور کہنے پر زرداری اور کرزئی کے دورہ امریکہ کے دوران ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی یادداشت پر دستخط ہوئے جس کے مطابق افغانستان اور بھارت کو تجارت کےلئے پاکستان نے راہداری فراہم کرنا تھی۔ پاکستان میں شدید ترین عوامی ردعمل پر اس معاہدے کو افغا میں رکھا گیا۔ پھر جولائی 2010ءکو اس معاہدے کی اسلام آباد میں بازگشت سنائی دی۔ کہا گیا کہ افغانستان سے تو مال بھارت جائے گا۔ بھارت کا مال واہگہ بارڈر سے افغانستان لے جانے کےلئے بھارتی ٹرانسپورٹ استعمال نہیں ہو گی۔ اب 6 اکتوبر 2010ءکو وفاقی کابینہ نے افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی منظوری دی ہے جس کے مطابق صرف افغانستان کو کنٹینروں کے ذریعے اپنا سامان بھارت لے جانے کی اجازت ہو گی۔ بھارت کو ایسی کوئی سہولت نہیں دی گئی تاہم بھارت کا اسی معاہدے سے بن گیا ہے۔ آئیے سری لنکا اخبار کی اس رپورٹ پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو اس وقت شائع ہوئی جب سوات میں آپریشن جاری تھا۔ RAW اور CIA افغانستان سے ہیروئن بھارت لے جاتی ہیں وہاں سے اچھے داموں دنیا میں سمگل کر دی جاتی ہے۔ اس ”تجارت“ کے منافع سے پاکستان میں سی آئی اے اور را کے دہشت گرد پل رہے ہیں.... ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے سے افغانستان سے بھارت ہیروئن کی فراہمی آسان ہو جائے گی۔ کنٹینروں کی تلاشی کس نے لینی ہے اور لینی بھی ہے تو سارا سامان اتروا کر کونے کھدرے تو نہیں چھانے جائیں گے جہاں ہیروئن چھپی ہو گی۔ بدمست بھارت کو آپ نے خیمے میں منہ گھسانے کی اجازت دے دی۔ اب وہ پورا خود داخل ہو جائے۔ پاکستان کے مفادات کے حوالے سے بھارت‘ افغانستان‘ امریکہ اور اسرائل یکساں خطرناک ہیں۔ سوائے مختصر سے طالبان دور حکومت کے افغان حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان کی کھل کر مخالفت اور بھارت کی حمایت کی۔ کرزئی بھی اسی پالیسی پر گامزن ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت افغانستان میں بھارت کے 19 قونصل خانوں کی موجودگی ہے۔ برادر‘ ہمسایہ اسلامی ملک کیلئے پاکستان کا سب کچھ حاضر ہونا چاہئے بشرطیکہ وہ پاکستان پر اعتبار کرے۔ انحصار کرے اور پاکستان کے دشمنوں پر لعنت بھیج دے کرزئی اور ان جیسے حکمرانوں کی سوچ بدلنے تک افغانستان کے ساتھ تجارتی اور دفاعی معاہدہ نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے معاہدے جن میں بھارت بھی شامل ہو پاکستان کی سلامتی اور بقا کے سراسر خلاف ہیں۔


No comments:

Post a Comment