منگل ، 12 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
اقتدار میں کیسے آنا ہے اور آتے رہتا ہے۔ ہمارے سیاسدانوں نے اپنے تلخ تجربات سے صرف یہی سیکھا ہے۔ کوئی فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آیا۔ کوئی چور دروازے سے‘ کوئی امریکہ کی آشیرباد سے کوئی اپنے پیاروں کو کندھا دے کر اور کوئی ایجنسیوں کا سہارا لے کر۔ جمہوری‘ نام نہاد جمہوری یا کمزور جمہوری حکومتوں پر خاکی پوشوں نے یلغار کی‘ کوڑے لگائے گئے‘ قلعوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا کانگرو کورٹس سے سیاسی بنیادوں پر سزائیں دلائی گئیں۔ پھانسیاں سیاستدانوں کا مقدر ٹھہریں۔ جلا وطنی کو تقدیر بنا دیا گیا۔ کچھ اذیتیں دے کر مار دئیے گئے کئی قتل ہوئے۔ اس کے باوجود سیاست کا قبلہ درست ہوا نہ سیاستدان صراط مستقیم پر آئے۔
12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف نے اس غلطی کی تلافی کرنے کی کوشش کی جوان سے جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لینے اور فوج کی باگ ڈور پرویز مشرف کے ہاتھ میں دینے کی صورت میں ہوئی۔ نواز شریف کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جائے ان کی غلطیاں کسی بھی سیاستدان سے کم نہیں وہ بھی ہیوی مینڈیٹ کے زعم میں سول آمر مطلق بن چکے تھے۔ مشرف تو فیصلہ کرنے کے بعد مشورہ کرتے تھے۔ میاں صاحب فیصلے کے بعد بھی مشورے کا تکلف نہیں کرتے تھے۔ ان کے انتخابی یعنی الیکشن کے ساتھیوں کو اب بھی شکوہ ہے کہ فارغ اور ویہلے نواز شریف آج بھی ان کو ملاقات کا وقت نہیں دیتے۔ نواز شریف کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ان کا میرٹ کو ڈی میرٹ کرکے مشرف کو آرمی چیف بنانا تھا۔ تاہم مشرف کہتے ہیں کہ نواز شریف نے یہی ایک صحیح فیصلہ کیا تھا۔ نواز شریف کے اس فیصلے سے پاکستان میں بہت کچھ بدل گیا۔ سنورا کچھ نہیں‘ بہت کچھ بگڑ گیا۔ جمہوریت کی شکل پر کالک مل دی گئی جمہوریت کو پایہ زنجیر کرکے پانچ سال پورے کرنے کیلئے ناچنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ پاکستان میں امریکہ کا عمل دخل تمام حدیں عبور کر گیا۔ اس کی طرف سے دوستی کی آڑ میں بدترین دشمنی کا سلسلہ عروج تک جا پہنچا۔ ارض پاک معاشرت کے ایسے ہی اقدامات کے باعث بے گناہ بچوں بچیوں‘ انسانوں کے لہو سے رنگین اور فضائیں بارود کی بو سے لبریز ہیں۔مارشل سیاستدانوں کی غلطیوں کے باعث آیا یا طالع آزمائی کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں۔ اس کو ہمیشہ سیاستدانوں اور عدلیہ نے کامیابیوں سے ہمکنار کیا۔ عدلیہ نے تو کافی حد تک اپنے دامن پر لگے داغ دھو ڈالے۔ سیاستدان بدنامی کے دھبوں میں اضافہ کئے جا رہے ہیں۔ بقول ان کے جمہوریت بڑی قربانیاں سے حاصل کی گئی ہے۔ اب اسی جمہوریت سے بیزار دکھائی دیتے ہیں اس کو دھکے اور ٹھڈے مار رہے ہیں۔وزیراعظم کہتے ’’میں نوکریاں دینے کا جرم کرتا رہوں گا‘ نوکریاں دینے کی پاداش میں عمر قید کے برابر جیل کاٹی‘‘۔ واقعی جس طرح آج حکمران نوکریاں دے رہے۔ صرف اپنے پارٹی برادرز حلقے کے افراد باقی قیمتاً‘ اقتدار سے جائیں گے تو جیلوں میں ہی سڑیں گے۔ اگر ملک سے باہر نہ بھاگ گئے تو…زرداری صاحب کہتے ہیں کہ نواز شریف ہمارے ساتھ ہیں۔ نواز شریف تردید نہیں کرتے۔ بلکہ کہتے ہیں جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ جس قسم کی آج جمہوریت ہے اس سے سب آگاہ ہیں مہنگامی‘ بے روزگاری‘ بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ‘ تیل کی قلت اور ہر ماہ قیمتوں میں اضافے کی ذلت آپشن‘ کمشن فراڈ دھوکہ اور نہ جانے کیا کیا یہی جمہوریت ہے؟ سیاستدانوں نے اپنے انداز نہ بدلے‘ عوام سلطانی جمہور کے ثمرات سے محروم رہے مشرف پر آرٹیکل 6 نہ لگا تو 12 اکتوبر 99ء جیسے سانحات وقوع پذیر ہوتے رہیں گے۔ مہم جو‘ بھاری لوٹ سیاستدانوں کی دم پر رکھتے رہیں گے۔
No comments:
Post a Comment