About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, October 15, 2010

مارشل لاؤں کے راستے بند ہو سکتے ہیں


جمعۃالمبارک ، 15 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
انتخابات کے انعقاد پر حکومت کے اربوں، امیدواروں کے کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پور ے ملک میں کئی ماہ تک گہما گہمی رہتی ہے، پرانی دوستیاں دشمنی اور دشمنیاں یاری میں بدلنے کی بھی یہی رُت ہے۔ دنگا فساد، مارکٹائی تشدد، قتل وغارت کے واقعات ہمارے ہاں ہونے والے انتخابات کا خاصہ ہیں۔ الیکشن جیتنے کے لئے دھونس دھاندلی، جبر لالچ ہر حربہ آزمایا جاتا ہے۔ جائیدادیں بیچی، ووٹیں خریدی جاتی ہیں۔ رزلٹ آنے پر جیتنے والے نہال بے شمار ہارنے والے کنگال ہو چکے ہوتے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے لئے گٹھ جوڑ ہوتے ہیں، بولیاں لگتی ہیں۔ عوامی نمائندے ووٹروں سے دور، بہت دور وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں شہر کی رنگینوں میں کھو جاتے ہیں۔ آدھے وزیر مشیر پارلیمانی سیکرٹری بن کر فل مراعات انجوائے کرتے ہیں باقی قائمہ کمیٹیوں کے عہدیدار اور ممبر بن کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ اقتدار کی چکاچوند میں آئین قانون عوام اور عوامی مسائل سب فراموش، ہوش اس وقت آتا ہے جب گردن پر بھاری بوٹ آ پڑتا ہے۔ الیکشن کے شیڈول کے اجرا سے حکومتوں کی تشکیل اور بعدازاں کاروبار حکومت چلانے تک کتنے اخراجات ہو چکے اور کتنے ادارے تشکیل پا چکے ہوتے ہیں۔ صدر، وزیراعظم وزیر مشیر گورنر وزرائے اعلیٰ بلٹ پروف گاڑیوں کے قافلے میں بڑے طمطراق سے رکی ٹریفک کے دوران رواں ہوتے ہیں۔ مضبوط اور سپریم پارلیمنٹ اور طاقتور پارلیمنٹیرین موجود ہوتے ہیں، ایسے میں صرف ٹرپل ون بریگیڈ کی ایک جیپ اور چند بندوق برداروں کا ایک ٹرک ساری شان و شوکت اور جاہ وحشمت خاک میں ملا دیتا ہے اس کے باوجود کہ ایسے اقدام کی آئین میں آرٹیکل 6 کے تحت سزا موت ہے۔
1973ء میں آئین کی تشکیل کے بعد اسی آئین کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا اب مارشل لاء کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا گیا ہے۔ تاہم محض چار سال کے اندر مارشل لاء بڑے کروفر کے ساتھ مسلط کر دیا گیا تھا۔ بات مارشل لاء تک ہی محدود و موقوف نہیں رہی۔ ضیاء الحق نے آئین کے بانی اور خود ان کو فائلوں کی تحت الشریٰ سے نکال کر آرمی چیف بنانے والے وزیراعظم کو تختہ دار تک بھی پہنچا دیا۔ نواز شریف کے دور میں آٹھویں ترمیم ختم کی گئی تو بڑی خوشی اور مسرت سے نعرہ لگایا گیا کہ اب مارشل لاء قصہ پارینہ بن جائے گا پھر سب نے دیکھا کہ مشرف نے ایک جمہوری حکومت کو الٹا دیا۔ نوازشریف کو خاندان سمیت اذیتوں اور جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔
گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے رہنما میاں شہبازشریف نے کہا ’’یقین ہے مشرف آخری آمر تھے۔ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔‘‘ شہبازشریف کے ملک میں مارشل لاء نہ آنے کے یقین کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔ اس کا ادراک صرف ان کو ہی ہو سکتا ہے۔ تاہم حکمرانوں اور سیاستدانوں نے وہ تمام لوازمات پورے کر دیئے ہیں جو آمریت کے لئے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں۔ اگر ہماری سیاسی جماعتیں دشنام طرازی، عدم برداشت، نفاق اور نفرت کے بجائے اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرتیں تو مارشل کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ آئین موجود ہے آرٹیکل 6 اپنی جگہ ہے لیکن طالع آزماؤں اور مہم جوؤں کو اس کی کبھی پرواہ نہیں ہوئی۔ اس لئے کہ آئین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کو ان کے ادوار کے بعد کسی نے نہیں پوچھا تو ضیاء الحق کو بھٹو کا تختہ الٹنے کی شہ ملی۔ ضیاء الحق بھی گیارہ سال وردی کے زور پر حکومت کر گئے اور پورے اعزاز کے ساتھ دفن ہوئے تو مشرف کو بھی جمہوری حکومت تاراج کرنے کا حوصلہ ملا۔ مشرف کو گارڈ آف دے کر رخصت کیا تو ان کے جانشین بھی اپنے پیشروؤں جیسی سوچ رکھ سکتے ہیں ہر آرمی چیف جنرل کیانی کی طرح پیشہ ور نہیں ہو سکتا۔ جو فوج کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ مارشل لاؤں کے راستے میں ایک ہی بند ہو سکتا ہے بہت بڑا بند، ناقابل تسخیر رکاوٹ، سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل دوسری صورت میں حکمران رفتِ سفر باندھ رکھیں۔

No comments:

Post a Comment