About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, October 13, 2010

اگر غیرت کی چنگاری کہیں خاکستر میں ہے


 بدھ ، 13 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
آج بھی ایس ایچ او کی دونوں بیٹیاں بس کے پچھلے اور اگلے گیٹ پر کھڑی تھیں لیکن آج صورت حال نارمل نہیں تھی۔ اسی قصبے میں دور دراز سے تعلیم کیلئے آنے والے طلبا فیصلہ کر چکے تھے کہ کچھ بھی ہو جائے۔ اسی بس پر اپنے اپنے گاؤں جائیں گے۔ کالج جڑانوالہ اور ننکانہ صاحب میں تھا وہاں سے بھی طلبہ سکول کے طلبہ کے ساتھ مل گئے تھے۔ لڑکوں کے بس میں سوار ہونے کی کوشش پر لڑکیوں نے مزاحمت کی۔ بالآخر لڑکوں نے لڑکیوں کو بس میں دھکیل دیا۔ بس کے اندر کوئی دھینگا مشتی تو نہ ہوئی البتہ بس کی رفتار سے زیادہ لڑکوں اور لڑکیوں کی زبانیں چل رہی تھیں۔ جس سٹاپ پر لڑکوں کے رنگ لیڈر نے اترنا تھا وہیں اس کے ساتھیوں نے دونوں بہنوں کو بھی کھینچ کر اتار لیا۔ دو دو تھپڑ مارے‘ بال کھینچے اور اٹھا کے بس میں پھینک دیا۔ 
لڑکیوں کا معمول تھا کہ وہ لڑکوں کو بس میں سوار نہیں ہونے دیتی تھیں۔ یہ 80ء کے شروع کا واقعہ ہے بس ڈیڑھ دو گھنٹے بعد چلتی تھی۔ لڑکے ایس ایچ او صاحب کے خوف سے لڑکیوں کے سامنے دم نہیں مارتے تھے آخر تنگ آکر لڑکیوں سے بدتمیزی کی۔ ایس ایچ او آج کی طرح ان دنوں بھی اپنے علاقے کا بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ بیٹیوں کی حالت دیکھی اور بپتا سنی۔ قامت برپا ہونا ہی تھی۔ تھانے کی پوری نفری کو ملزموں کی گرفتاری کا حکم دیا گیا آدھی رات تک بیس بائیس تمام کے تمام طالب علم حوالات میں بند تھے۔ اگلے روز ان لڑکوں کے اَبّے اپنے اپنے گاؤں کے نمبردار اور بااثر لوگوں کے ساتھ تھانے پہنچ گئے۔ بڑے تھانیدار صاحب نے چھوٹے تھانیدار کو ان کے پاس بھیج دیا۔ معززین نے اپنے بچوں کے کرتوتوں پر معافی مانگی۔ ایس ایچ او کے نمائندہ تھانیدار نے بڑی فراخ دلی سے معزز ین کی معذرت قبول کرتے ہوئے کہا کہ کالج کے طلبا کے ورثاء ایک ہزار‘ سکول کے طلبا کے لواحقین 5 سو روپے ادا کریں اور بچوں کو لے جائیں۔ ادائیگی کے بعد لڑکوں کو چھوڑ دیا گیا۔ ان میں ایک نمبردار کا بیٹا بھی تھا۔ اس نمبردار نے ایس ایچ او کو خط لکھا کہ جناب ہمارے بچوں نے آپ کی بیٹیوں کے ساتھ انتہائی گھٹیا اور ناروا سلوک کیا۔ ہم نے اس پر معافی مانگی۔ اس کے بعد ایک غیرت مند باپ ہونے کے ناطے آپ کے پاس دو آپشن تھے ہمارے بیٹوں کو غیر مشروط طور پر چھوڑا دیتے یا ان کا چالان کرکے جیل بھجوا دیتے لیکن آپ نے اپنی بیٹیوں کو بے عزت کرنے والوں کو پیسے لے کر چھوڑا۔ یہ انتہائی بے غیرتی ہے… غیرت کی چنگاری خاکستر میں کہیں موجود تھی۔ تھانیدار نے اس خط پر تبادلہ کرا لیا۔ 
پاک سرزمین پر ڈرون حملوں کا سلسلہ کئی سال سے جاری ہے۔ گذشتہ ماہ کے آخر میں نیٹو کے ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی حدود میں گھس کر تین حملے کئے۔ آخری حملے میں تین فوجی شہید ہو گئے۔ اس سے قبل 50 افراد مارے گئے تھے۔ ان حملوں پر پاکستان نے شدید احتجاج کیا اور پاکستان سے نیٹو کی زمینی سپلائی بند کر دی۔ امریکہ نے معافی مانگی آئندہ ہیلی کاپٹروں سے حملہ نہ کرنے سے توبہ کی تو 10 اکتوبر 2010ء سے سپلائی بحال کر دی گئی۔ ہیلی کاپٹر حملوں‘ سپلائی پر پابندی اور بحالی کے تمام مراحل کے دوران ڈرون حملے بدستور جاری رہے۔ کیا ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی‘ خود مختاری اور وقار کے خلاف نہیں ہیں؟ ان پر ویسا ہی ردعمل کیونکر نہیں‘ جیسا ہیلی کاپٹر حملوں پر تھا؟ کیا ہیلی کاپٹر بارود اور ڈرون پھول برساتے ہیں؟ وزیر دفاع نے نیٹو سپلائی کی بحالی کے موقع پر کہا کہ کنٹینرز پر ٹیکس لگائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرف اور اس کے جانشیں ہر معاملے میں امریکہ اور اتحادیوں سے خرچ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ کیا عزت‘ وقار اور قومی غیرت کو ڈالروں میں تولا جا سکتا ہے؟ حکمرانوں کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ امریکہ کی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے۔ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے۔ ڈالروں کے عوض اپنے بندے خواتین سمیت امریکہ کے حوالے کرنا‘ سڑکوں کے استعمال کا معاوضہ طلب کرنا اور ٹیکس لگانا بے غیرتی کی انتہا ہے اگر غیرت کی چنگاری کہیں خاکستر میں ہے تو ہر عہدیدار کو اپنا یا سابقوں کے کئے کا مداوا کرنا چاہئے۔

No comments:

Post a Comment