About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, October 20, 2010

دستِ قدرت کا انتظار

بدھ ، 20 اکتوبر ، 2010
 پھولوں کی سرزمین، خوشبوؤں کی دھرتی میں ایک طرف غیروں نے بارود پھیلا دیا ہے تو دوسری طرف سیاستدانوں اور حکمرانوں نے زہر آلود زبانوں‘ ہوس زدہ ارمانوں اور عدم برداشت کے پیمانوں سے رنگ نور کے مصدر‘ اجالوں کے کشور اور حسیں نظاروں کو جھلسا اور گہنا دیا ہے۔ سیاست کا چلن ایسا کہ ہر پارٹی حکمران ہے۔ حکمران اگر غلط روش اختیار کریں تو ان کو کون سمجھائے؟ اپنے اپنے مفادات کیلئے سرگرداں‘ جہاں مفاد کو زک پہنچتی نظر آئی دست و گریباں۔ ہر پارٹی نے قصیدہ گو اور ہجوگو رکھے ہوئے ہیں۔ جو مورخ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ سب خود کو پاک دامن مخالفوں کو روسیاہ قراردینے پر تلے ہوئے ہیں۔ سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے؟ شفاف اور گدلے پانی کا دھارا بنا دیا گیا ہے۔ ملک بھر میں بدامنی اور شورش کی کچھ آگ غیروں نے لگائی لیکن ہماری مرضی سے‘ اس کو شعلوں میں حکومتی پالیسیاں تبدیل کر رہی ہے اور کچھ آگ ہم خود لگا رہے ہیں‘ شعلے بھڑکا رہے الاؤ دہکا رہے ہیں۔ بلوچستان میں بھائی بھائی کو اڑا رہا ہے۔ کراچی میں بھی بھائی بھائی پر ستم ڈھا رہا ہے کلمہ گو لسانیت اور قومیت کے نام پر ایک دوسرے کو ذبح کر رہے ہیں۔ کون کیا کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے؟ سب معلوم ہے لیکن اسے روکنے کی کوئی سبیل کی جاتی ہے نہ تدبیر‘ دست قدرت کا انتظار ہے وہ بھی صرف مظلوموں بے بسوں اور بے کسوں کو‘ اونچے شملے‘ لمبی گردن اور بڑھی ہوئی توند والوں کو کوئی پروا نہیں ان کی کمشن کرپشن اور بھتے کی گیم چل رہی ہے۔ کوئی باری لے رہا ہے تو کوئی باری کا منتظر ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک اور وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کی زباں سے خیر کی خبر اعلیٰ حکمرانوں کی طرح کم ہی نکلتی ہے۔ ذوالفقار مرزا جو اپنے صوبے میں قیام امن کے ذمہ دار ہیں فرماتے ہیں کہ کراچی امریکہ کو ٹھیکے پر بھی دے دیا جائے تو بھی فوری امن ممکن نہیں۔ امریکہ کا نام اور فون سن کر ان کی حکمران جماعت یا پرویز مشرف اور حواریوں کی جان جاتی ہے۔ امریکہ بندوق کے زور پر کہاں امن قائم کر سکا ہے؟ اس کی فطرت میں تو دنیا کو شر اور فساد کا گڑھ بنانا ہے، امن کا گہوارہ نہیں ہے۔ قیام امن کیلئے امریکہ جیسی ابلیسی قوت کی نہیں خلوص نیت کی ضرورت ہے… افغانستان تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ امریکہ اور روس نے اپنی اپنی جنگ اسی خطے میں لڑی۔ جنگ میں روس بھاگ گیا جنگ کے بعد امریکہ اپنے اتحادیوں جن کو وہ مجاہدین قرار دیتا تھا باہم دست و گریبان ہونے کیلئے چھوڑ گیا۔ اس شورش زدہ اور تباہ حال ملک میں مجاہدین نے سالوں اور مہینوں میں نہیں دنوں میں امن قائم کر دیا۔ اسلحہ کو زیور سمجھنے والے معاشرے نے اسلحہ جمع کرا دیا۔ پوست جوان کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن تھا اس کی کاشت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ پورے ملک میں بغیر کسی جبر اور سختی کے امن ہو گیا۔ حکمران پر خلوص تھے عوام نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ ہمارے ہاں فراڈ‘ فریب جھوٹ دھوکہ دہی کے چراغ روشن ہیں۔ سچائی دیانت اور انصاف کا جنازہ اٹھا دیا گیا ہے۔ حکمران مرضی کا انصاف چاہتے ہیں۔ عدالتوں پر الزامات اور دشنام کی بھرمار ہے ججوں پر دباؤ ہے۔ ان سے وزیراعظم کہتے ہیں ہم پ کے ساتھ مل بیٹھنے پر تیار ہیں۔ مل بیٹھیں گے تو انصاف خاک ہو گا۔ ایک دانشور نے درست کہا کہ حکومت ججوں کو کہتی ہے بحالی کے ایگزیکٹو آرڈر کی توثیق باقی ہے جنرل کیانی کو کیوں نہیں کہتی کہ مدت میں تین سالہ توسیع کی بھی توثیق ہونا ہے۔ یہ عدالتوں کو لاوارث فوج کو قوت جبروت سمجھتے ہیں۔ فوج کے سامنے سر جھکا کے عدلیہ کے آگے سینہ پھلا کے بات کرتے ہیں۔ وہاں چڑیا یہاں شاہین بنے پھرتے ہیں۔ نیت صاف ہو تو خدا بھی مدد کرتا ہے۔ انہوں نے محض ایک استثنیٰ کی خاطر تمام اصول و ضوابط قانون، آئین حتیٰ کہ انسانیت بھی داؤ پر لگا دی۔ معاشرے میں اتحاد کے بجائے انتشار کو فروغ دیا۔ ترک وزیراعظم طیب اردگان پاکستان آئے تو بار بار قومی اتحاد کا درس دیتے رہے۔ وہ واپس گئے تو اگلے روز عالمی میڈیا میں ایگزیکٹو آرڈر کی واپسی اور اس پر عدالتی کارروائی کی خبروں پر ایک تماشا لگا ہوا تھا۔ برادر اسلامی ملک کے وزیراعظم نے پاکستان‘ پاکستان کی سیاسی قیادت اور قومی اتحاد کے بارے میں دئیے گئے مشوروں کے بارے میں کیا سوچا ہو گا! … این آر او حکومت کی دکھتی رگ سے اگر یہ حکمرانوں کیلئے چھچھوندر بن گیا ہے تو آسان حل ہے۔ معاملہ عدالتوں سے ہٹا کر عوامی عدالت میں لے جائیں۔ اس پر ریفرنڈم کروا لیں اگر آپ بھی طیب اردگان کی طرح عوام میں مقبول ہیں تو ریفرنڈم میں تاخیر مت کیجئے۔


No comments:

Post a Comment