About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, October 22, 2010

خواجہ ناظم الدین… شریف اور وضعدار سیاستدان


جمعۃالمبارک ، 22 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
سیاست کرنیوالے وضعدار اور شریف ہوں تو سیاست میں بھی وضعداری اور شرافت آجاتی ہے۔ یہی اصل سیاست کی روح خوبصورتی اور بانکپن ہے۔ بدقسمتی سے آج کل شرافت اور وضعداری سیاست سے دور بہت دور کردی گئی ہے۔ آج سیاست کا مطلب چالبازی، مکروفریب اور دھوکہ دہی لیا جاتا ہے۔ اصولوں پر مبنی سیاست اور بے اصولی کی سیاست کا کوئی خاص دور نہیں ہوتا۔ یہ شخصیات کی ذہنیت، کردار اور اطوار پر منحصر ہے۔ آج جس قبیل کے سیاستدان ہیں اور انکی سیاست ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستانیوں کے آئیڈیل سیاستدان قائداعظمؒ اور انکی سیاست قابل تقلید ہے۔ قائداعظمؒ کے بعد خواجہ ناظم الدین اور محمد خان جونیجو شرافت اور سادگی کی سیاست کے پیکر نظر آتے ہیں۔ گو دونوں کے ادوارِ وزارت عظمیٰ کے درمیان 33 سال کا فرق ہے لیکن انکی سیاست کا سلیقہ، طریقہ اور رنگ ڈھنگ تقریباً ایک جیسا تھا۔ تکلفاف، تصنع، بناوٹ اور منافقت سے پاک سیاست۔ خواجہ ناظم الدین اپنی گورنری اور وزارت عظمیٰ کے دوران ٹفن میں گھر سے کھانا لایا کرتے تھے۔ محمد خان جونیجو کے دور میں اگر وزیراعظم ہائوس میں کھانا پکتا تو نہایت سادہ جسے کھاتے ہوئے افسر ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ گوشت کبھی کبھار پکتا تھا۔ انکے گھر کا کھانا نظامی صاحب نے کھایا ہے، وہ بھی عام سا ہوتا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے وزیراعظم ہائوس میں سادہ کھانے کی روایت کو توڑا، نوازشریف نے مروڑا، (ق) لیگ کے وزرائے اعظم نے جھنجھوڑا اور یوں فضولیات در فضولیات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامے میں لکھا ہے کہ خواجہ ناظم الدین کا پیٹ بڑھا ہوا تھا۔ ان کی آفس ٹیبل انکے پیٹ کے مطابق گولائی میں کاٹی گئی تھی۔ خواجہ صاحب کھانے کے شوقین تھے، پینے کے ہرگز نہیں۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ وزیراعظم ہائوس میں نماز ادا کرتے تو اکثر خود امامت کراتے تھے۔ بیگم صاحبہ پردے کی سخت پابند، کبھی وزیروں کے سامنے بھی نہیں آئیں۔ آج کے حکمران بھی خواجہ صاحب سے دگنا تگنا کھائیں، دبا کے کھائیں۔ وہ اپنی جیب سے کھاتے تھے۔ یہ سرکاری خرچے پر کھائیں، خزانے کو قطعاً قطعاً فرق نہیں پڑیگا۔ خزانہ ضعف اور ناتوانی کا شکار بیدردی سے لوٹے جانے پر ہوتا ہے۔ یہ خزانے کو معاف کردیں تو ہر پاکستانی خوشحال اور ملک قرضوں سے آزاد ہوسکتا ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا۔ جونیجو نے جمہوریت کا آشیاں بنایا تو ضیاء الحق نے اس پر بجلی گرا دی۔ اسکے باوجود ضیاء الحق فضائی حادثے کا شکار ہوئے تو محمد خان جونیجو جنازے میں آگے آگے تھے۔ خواجہ ناظم الدین نے برداشت اور رواداری کی اس سے بھی بڑی مثال قائم کی۔ انہوں نے گورنر جنرل کا منصب غلام محمد کیلئے خالی کرکے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ غلام محمد نے انکی حکومت کا خاتمہ کردیا لیکن انکی زبان پر حرفِ شکایت نہ آیا۔ غلام محمد کا انتقال ہوا تو خواجہ ناظم الدین انکے جنازے اور تدفین میں شریک تھے۔ آج کی سیاست میں رواداری کا اندازہ کیجئے۔ فاروق احمد خان لغاری کے جنازے میں کسی پارٹی کی مرکزی قیادت شامل نہیں تھی۔ خود انکی اپنی پارٹی (ق) لیگ کے قائدین بھی جنازے میں نہیں گئے۔ کیا شریف اور وضعدار سیاستدانوں کے اٹھنے سے شرافت اور برداشت کی سیاست کا جنازہ بھی اٹھ گیا ہے۔
جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم ناظم الدین کو برطرف کیا اس دن خواجہ صاحب دورے پر جانیوالے تھے۔ انکو اپنی برطرفی کا علم ریڈیو کے ذریعے ہوا۔ اس ستم پر کوئی منفی ردعمل تو کیا روایتی بیان بھی جاری نہ کیا۔ اس زمانے میں عام تاثر یہ تھا کہ خواجہ صاحب سے دھوکہ کرنیوالے وہی لوگ تھے جن پر بھروسہ کیا کرتے تھے، یعنی سکندر مرزا وغیرہ۔ اپنی برطرفی پر وزیراعظم ہائوس سے رخصت ہونے لگے تو افسردہ نظر آرہے تھے اور آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ وزیراعظم ہائوس چھوڑتے ہوئے انہوں نے صرف اتنا کہا ’’یہ پاکستان پر ظلم کیا گیا ہے‘‘… انکا اندازہ بالکل درست تھا۔ اسکے بعد پاکستان کے دولخت ہونے تک سیاست سنبھالے نہ سنبھلی۔ آپ 22 اکتوبر 1964ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔ انکو انکے آبائی علاقے ڈھاکہ کے نواح میں سپردخاک کیا گیا۔

No comments:

Post a Comment