جمعرات ، 21 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
چوٹی زیریں میں 29 مئی 1940ء کو پیدا ہونے والے فاروق احمد خان لغاری نے پاکستان کی سیاست کی سب سے بڑی چوٹی بھی سر کی۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ایک عام کارکن کی حیثیت سے کیا۔ پھر وہ منزل پہ منزل مارتے ہوئے پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب تر ہوئے اور پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پر تعینات کر دئیے گئے۔ وہ صدر پاکستان بنے تو حکومت کی سانسیں ختم کرنے کا ہتھیار 58ٹو بی کی صورت میں ان کے پاس تھا۔ جو لغاری صاحب نے اپنی ہی حکومت کے خلاف استعمال کر ڈالا۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی سیاست اس کے آغاز سے ہی متنازعہ رہی ہے۔ فاروق لغاری پارٹی میں ہی متنازعہ ہو گئے۔ پاکستانی سیاست آج بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ پرو بھٹوز اور فوء بھٹوز‘ فاروق لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کیا تو پارٹی کیلئے راندہ درگاہ تو ٹھہرے ہی‘ پیپلز پارٹی کے حریفوں کے دل میں بھی جگہ پیدا نہ کر سکے۔ پیپلز پارٹی نے ان کو 14 نومبر 1993ء کو صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ پر فائز کیا۔ لغاری نے 6 نومبر 96ء کو بے نظیر بھٹو کی حکومت توڑی معراج خالد کو نگران وزیراعظم بنا کر الیکشن کرائے۔ جس کے نتیجے میں فروری 97ء کو نواز شریف اقتدار میں آئے۔ نواز شریف نے پہلا کام لغاری صاحب کے مشورے سے پارلیمنٹ سے 58ٹو بی کے خاتمے کا کیا۔ پاکستان کے طاقتور ترین صدر کے پر کاٹ دئیے گئے۔ نواز شریف کی اپنی عادت کے مطابق فاروق لغاری سے بھی نہ بنی۔ پھر ایک موقع یہ بھی آیا کہ نواز شریف حکومت اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے مابین کشیدگی عروج پر تھی۔ لوگ حکومت کے مستقبل سے مایوس ہو چکے تھے۔ سپریم کورٹ پر حملہ ہوا۔ ججوں کی تذلیل کی گئی۔ نوٹوں کے بریف کیس بھر کے ججوں تک پہنچانے کی خبریں عام ہوئیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے صدر کو اپنی طرف سے 58 ٹو بی کا اختیار دے دیا لیکن فاروق لغاری نے یہ اختیار استعمال کرنے کے بجائے استعفیٰ دینا مناسب سمجھا۔ لغاری ایوان صدر سے خود نکلے۔ سجاد علی شاہ کو نواز شریف اور سجاد علی شاہ کے ساتھی ججوں نے سپریم کورٹ سے نکال دیا۔ لغاری صاحب کی زندگی میں سب سے بڑے اصولی فیصلے کی بات کی جائے‘ سیاست پر نظر رکھنے والوں کو تو یہی ایک صدارت سے مستعفی ہونے کا ہی دکھائی دیتا ہے۔ پھر فاروق لغاری نے ملت پارٹی بنائی۔ شاید ان کو بھی یار دوستوں نے قوم میں انتہائی مقبولیت کی ’’پھوک‘‘ بھر دی ہو جیسا آج مشرف کو مفلوک الحال سیاستدانوں نے فیس بک پر مقبول ترین رہنما قرار دے کر پاکستانیوں کے دل کی دھڑکن باور کرا دیا ہے۔ ملت پارٹی پیپلز پارٹی کی سیاست اور حجم کے قریب بھی نہ پھٹک سکی۔ تاہم 2002ء میں ملت پارٹی کو چند نشستیں ضرور ملیں جس کی بناء پر کی خصوصی نشستوں اور سینیٹرز کی تعیناتی کا اختیار پارٹی سربراہ کے پاس آیا تو انہوں نے سب کچھ اپنے عزیزوں اور دوستوں میں تقسیم کر دیا۔ اسی کے باعث بریگیڈئر یوسف جیسے بے لوث اور مخلص ساتھی بے اصولیوں سے دلبرداشتہ ہو کر پارٹی چھوڑ گئے۔ بالآخر فاروق لغاری بھی مشرف کے دام الفت میں گرفتار ہوئے اور پارٹی محمد علی درانی سمیت ق لیگ میں ضم کر دی۔ لغاری صاحب تہی دست کبھی نہ تھے۔ تہی دوست تھے یا نہیں اس کا اندازہ ان کے جنازے میں شامل اشرافیہ اور اکابرین کی شرکت سے کیا جا سکتا ہے۔ لغاری صاحب کا تعلیمی و سیاسی تجربہ جتنا فراواں تھا دستر خوان اتنا ہی ویراں تھا۔
جو انسان دنیا میں آیا اس نے جانا بھی ہے۔ یہ انسان پر ہی منحصر ہے کہ وہ آگے کیا بھیجتا ہے اور پیچھے کیا چھوڑ جاتا ہے۔ فاروق لغاری بھی فانی تھے گذشتہ روز 19 اکتوبر 2010ء کو دنیا چھوڑ گئے۔ دنیا میں جو چھوڑ گئے اس کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ ان کے کارنامے بولتے رہیں گے۔ آج میڈیا میں ان کے انتقال کی سرسری سی خبر نشر اور شائع ہوئی ہے۔ وہ پیپلز پارٹی میں موجود ہوتے تو کیا ان کی وفات پر ایسا ہی سکوت ہوتا؟ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ ۔۔ وہ ساتھ کچھ نہیں لے گئے موجودہ حکمرانوں نے بھی کچھ نہیں لے جانا۔ پھر بھی سو برس کا سامان کیا جا رہا حالانکہ پل کی خبر نہیں اپنے پیٹ کے دوزخ بھرے جا رہے ہیں‘ ان کو قوم کا کوئی احساس نہیں خیال نہیں اور بالکل صبر نہیں۔ خدا فاروق لغاری کی مغفرت فرمائے۔
No comments:
Post a Comment