31-10-10
فضل حسین اعوان ـ
میراثی کوئی قوم نہیں‘ لوگ بھولپن میں میر عالموں کو میراثی کہہ دیتے ہیں۔ تاہم میراثیت ایک کیفیت ضرور ہے جو کسی خاص طبقے کی میراث نہیں یہ کسی پر بھی طاری ہوسکتی ہے بعض کالم نگاروں پر ہمہ وقت اور بعض پر کبھی کبھی طاری ہوتی ہے۔ پرویز مشرف پر میراثیت اپنے دورِ صدارت میں انتہائی مصروفیات کے دوران بھی طاری ہوجاتی تھی۔ آج تو وہ بالکل فارغ ہیں۔ وہ شام چوراسی گھرانوں کے استادوں اور خاں صاحبوں کے سامنے زانوئے تلمند بھی طے کرتے رہے۔ شاید بات استہائی اور منترا سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اگر سرتال کی اے اور زیڈ تک پہنچے ہوتے تو جرنیل نہ بنتے خاں صاحب ہوتے۔ بہر حال وہ آج بھی خاں صاحب ہیں لیکن نیم خاں صاحب۔ صبح دفتر جانے سے قبل بیگم صاحبہ کو کچھ گنگناتے سنا تو میاں نے کہا آج تو میرا، سی لگتی ہو، محترمہ بڑی خوش ہوئیں، خاوند کے جانے کے بعد شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر خود کو غور سے دیکھا، کبھی لٹ لٹکا کر اور کبھی اٹھا کر، کبھی سلجھا کر اور کبھی الجھا کر، میرا کی طرح تھوڑی جہانگیر بدر اور راجہ ریاض جیسی انگلش بھی بولنے کی کوشش کی۔ پھر اس خیال میں غرق ہوگئی کہ شوہر نامدار نے میرا، سی کیوں کہا۔ سوچتے سوچتے ذہن میں بجلی کوندی کہ میں تو گار ہی تھی میرا تو اداکارہ ہے گلوکارہ نہیں۔ خاوند گھر آیا تو بپھری اہلیہ نے چمٹا اٹھایا ہوا تھا۔ وہ خاوند کے طنز کی تہہ تک پہنچ چکی تھی اس نے میرا، سی نہیں میراسی یعنی میراثی کہا تھا۔
میجر نذیر فاروق بتا رہے تھے اصل نام تو اس کا کوئی اور ہوگا اسے لوگ ہاکو میراثی اور اس کی بیگم صاحبہ کو اس کے کردار اور اطوار کے باعث بالولتری اور بالو چوٹی کہتے تھے۔ وہ ذات کا میر عالم لیکن مزاجِ شاہانہ ادائے دلبربانہ اور صدائے عاجزانہ کا مرقع تھا۔ بیگم صاحبہ بھی کوئی کم نہ تھیں۔ ’’شاہی جوڑے‘‘ کا ہفتے بھر کا معمول صبح گھر سے نکلنا اور رات گئے واپسی تھا۔ ہاکو گائوں سے نکل کر کسانوں زمینداروں کے ڈیروں پر جاتا۔ ان کو خاندان کا شجر سُر کے ساتھ سناتا۔ بعض اوقات سہر ا بھی گا دیتا۔ کسی سے گڑ، کسی سے گنا، کسی سے مکئی یا جو بھی فصل ہوتی لے کے اٹھتا، کئی چودھری اس کے سامنے جیب بھی ہلکی کر دیتے۔ وہ مانگنے کا فن جانتا تھا کسی سے قصیدہ سنا کر کام نکالنا اور کسی کو اس کے مخالف کی ہجوبیان کرکے مائل بہ کرم کرلیتا۔ جو اپنا شجر نصب گورو اور رام سے ملنے پر خوش نہ ہوتا اس کے مخالف کا شجرہ راون اور شمر یزید تک جوڑ دیتا۔ شام کو وہ لدا پھندا گھر پہنچتا۔ بالو اس سے بڑھ کر گھروں میں اِدھر کی اُدھر لگاتی، خاتون خانہ کی توجہ ہٹتے ہی چمچ پیالی کولی جو بھی ہاتھ لگتا نیفے میں اڑس لیتی، ’’ مالِ غنیمت‘‘ گھر چھوڑ کر پھر اپنے مشن پر نکل پڑتی۔ جمعہ کی صبح سے لیکر بدھ کی شام تک ہاکو اور بالو کا زندگی بھر یہی معمول رہا۔ جمعرات کو وہ جشن مناتے 6 دن کا اکٹھا کیا ہوا مال و سامان جمعرات کی شب خرچ اور صرف کرکے سوتے، گائوں کے کونے پر برلبِ سڑک ان کا گھر تھا۔ ہاکو اور لاچا مایا لگا کرتا پہن کر بغیر چار دیواری کے صحن میں بیٹھ جاتا چار پانچ منجے اور چوکیاں رکھی ہوتیں اپنی برادری کے لوگوں کو مدعو کیا جاتا، دو تین حقے تازہ کئے جاتے، بالو کی قصوری کھسّے میں اڈی نہ لگتی، مکمل گہنوں سے لدی، چمکیلے کپڑوں میں لڈی ڈالنے کے انداز میں اِدھر سے اُدھر مٹکتی تھی۔ بڑے دیگچوں میں گوشت، چاول اور کھیر پکائی جاتی۔ اس دن ہاکو اور بالو خود کوئی کام نہ کرتے ساری ذمہ داری رکھے جھیرا اور بانو ماچھن کی ہوتی۔ شام کو زمیندار اور کسان بیل گڈوں پر واپس گھروں کو لوٹ رہے تو تکیے سے ٹیک لگائے ہاکو ان کو بڑی تمسخر سے بلا بلا کر کہتا اوئے چودھری آجا کچھ اچھا بھی کھالے، ایسا کھانا تیری قسمت میں کہاں!… مانگتے وقت مائی باپ اور جمعرات کی شام کو اوئے چودھری۔ ذرا اپنے حاکموں کی طرف دیکھئے ان کے بیانات اور مانگنے کے انداز ملاحظہ فرمائیے ووٹ لینے جاتے ہیں تو کیا کہتے پھر ایوان اقتدار میں جاکر جمعرات والا رویہ، ٹی وی شوز میں کہا کرتے ہیں ذرا سوچیے بہت سے ہاکو اور بالو لُتریاں کان کتریاں نظر آجائیں گی۔
No comments:
Post a Comment