About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, November 1, 2010

آئین سب سے بڑا میثاق پاکستان

1-11-2010
فضل حسین اعوان ـ
آئین قانون اور اصولوں کے چراغوں کو ہوا کے دوش پر رکھ کر ذہنی اختراع کو فلسفے کا نام دینے سے قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے نہ بحرانوں، مسائل اور مشکلات سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایک دو اعلیٰ دماغ قوم کا مطاف بن چکے ہیں۔ ان دماغوں سے برآمد ہونے والے زریں خیالات قوم کو چکرا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ خود گڑ کھا کر قوم کو گڑ کھانے سے منع کرتے ہیں۔ اپنا دامن بھر کر قوم کو انسانیت کی خدمت اور مصیبت زدگان کی بحالی کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کی امانت اور دیانت کا پرسنٹ میں تذکرہ ہوتا ہے۔ اندرون اور بیرون ممالک کاروبار جائیدادیں محلات اور بنک اکائونٹس قوم کی خدمت اور عظمت کا نشا ن قرار پاتے ہیں کردار اور اعمال کے حوالے سے قائداعظم کی خاک پا تک کو نہ چھونے والوں کو حاشیہ بردار قائداعظم ثانی کے زعم میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ بھٹو کے نظریات کو سمجھنے تک کی اہلیت نہ رکھنے والے خود کو بھٹو جیسا لیڈر کہلوانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ قائداعظم نے انگریزوں اور ہندوئوں سے پاکستان چھین کے دکھا دیا۔ گو بھٹو پر پاکستان کو دو لخت کرنے کا الزام بھی ہے تاہم پاکستان میں ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے جیسا کارنامہ ان کے کریڈٹ پر ضرور موجود ہے جس سے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا۔
آج پاکستان جن مصائب اور مسائل کی دلدل میں دھنس چکا ہے اس میں بزعم خویش قائداعظم اور بھٹو ثانی دونوں برابر کے شریک ہیں ایک قوم کو ڈبو رہا ہے تو دوسرا تماشبین بن کر اس کے گناہ دھو رہا ہے۔ یہ کبھی ایک دوسرے کو للکارتے ہیں تو کبھی مدد کے لئے پکارتے ہیں۔ ایک مرکز میں حکمرانی پر راضی ہے تو دوسرا سب سے بڑے صوبے میں حاکمیت پر خوش۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ اور بیانات کی یلغار کرتے ہیں تو ان کے حامی ہیجان میں مبتلا ہو جاتے ہیں پھر صلح کی طرف قدم بڑھنے لگتے ہیں تو بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ معانقے ہوتے ہیں گلے شکوے دور ہو جاتے ہیں چند روز قبل کی دھینگا مشتی نورا کشتی معلوم ہونے لگتی ہے۔ گزشتہ اڑھائی پونے تین سال سے یہ عمل ہر دو تین مہینے بعد دہرایا جا رہا ہے۔ صدر صاحب گیم خراب کرتے ہیں اپنے فلسفے اور بیانات سے۔ گیلانی صاحب اپنے صدر کو ضرورت پڑنے پر بیل آئوٹ کرانے کیلئے درِ شریفین پر لڑھکتے چلے آتے ہیں۔ یہ اسی پر خوش کہ اسلام آباد چل کر رائیونڈ آ گیا۔ چند روز بعد احساس ہوتا ہے اسی سوراخ سے ایک بار پھر ڈسے جا چکے ہیں۔ یہ معصوم مومن ہیں جو ہر تین ماہ بعد ایک ہی سوراخ سے متواتر ڈسے جا رہے ہیں۔ یہ ہاکس اور فاکس میں رن ہے دیکھیں باقی سوا دو سال کی مدت میں کون میدان مارتا ہے؟
یہ ہماری سیاسی قیادت کی چالاکی ہے یا بھولپن، یا یہ قوم کو بھلکڑ سمجھتے ہیں یا ان کے خیالات میں تبدیلی آ گئی ہے۔ نواز شریف نے ملک بچانے کے نام پر فوج عدلیہ سیاستدانوں اور میڈیا کو مل بیٹھ کر25 سالہ ایجنڈا تشکیل دینے کی دعوت دی ہے۔ پیپلزپارٹی تو ایسے 100 سالہ ایجنڈے کی بھی حامی ہے جس میں اس کا اقتدار محفوظ رہے۔ نواز شریف بھی شہباز شریف کی طرح مصروف کار رہیں تو شاید فارغ وقت ملنے پر کوئی نئے آئیڈیاز سوجھیں۔ وہ اس ایجنڈے کو میثاق پاکستان بھی قرار دیتے ہیں۔ ملک میں آئین موجود ہے آزاد عدلیہ وجود میں آچکی ہے آمریت سے بھی بدتر ہی سہی جمہوریت تو موجود ہے۔ ایسے میں کسی ایجنڈے اور میثاق کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ضرورت ہے تو آئین اور قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل پیرا ہونے کی۔ صرف آئین کی بات ہی نہیں ملک میں رائج 90 فیصد قوانین پر سرے سے عمل ہی نہیں ہوتا۔ 
میثاق پاکستان کے فریقین بھی وہی ہونگے جو کرپشن کے بادشاہ اور کمشن کے شہنشاہ ہیں جن کی نظر میں آئین کی کوئی اہمیت ہے نہ قانون کی کوئی وقعت جو اداروں کو مطیع بنا کر رکھنے کیلئے سرگرداں ہیں۔ 
آئین سب سے بڑا میثاق پاکستان ہے۔ اس کا احترام اور اس پر عمل یقینی بنا لیا جائے تو وہ تمام مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں جو نواز شریف کو 25 سالہ ایجنڈے میں ِدکھتے ہیں۔ یہ اس صورت میں آسانی سے حاصل کئے جا سکتے ہیں اگر آئین شکنی کی آئین میں موجود سزا پر عمل درآمد کر دیا جائے۔


No comments:

Post a Comment