منگل ، 02 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان
ترکی میں جرنیل اور جج خود کو اتاترک کے سیکولرازم کا محافظ سمجھتے ہیں لیکن آج رجب طیب اردگان کی وزارت عظمیٰ اور عبداللہ گل کی صدارت میں ترکی کا روشن اسلامی چہرہ افق پر نمایاں ہو رہا ہے۔ عدنان مندریس نے بھی اسلام دشمنی کی عبا تار تار کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس پر جرنیلوں نے ان کی حکومت الٹ دی۔ 17 ستمبر 1961ء کو ججوں کے ساتھ مل کر جرنیلوں نے مندریس کو پھانسی لگا دی۔ طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی اسلام پسندی کے حوالے سے شہرت ہے۔ صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم اردگان کی بیگمات سرکاری تقریبات میں سکارف اوڑھ کر شرکت کرتی ہیں۔ شروع میں جرنیلوں نے اس پر شدید تنقید کی۔ ججوں کے پیٹ میں بھی مروڑ اٹھے۔ گذشتہ روز صدر کی اہلیہ ایک تقریب میں سکارف پہن کر شریک ہوئیں تو جرنیلوں نے اس تقریب میں شرکت نہ کی یہ ان کی طرف سے محض خاموش احتجاج تھا۔
حکومت نے آئین میں تبدیلی کی کوشش کی تو فوج آڑے آ گئی۔ جج پہلے ہی فوج کے کسی بھی انتہائی اقدام پر مہر تصدیق ثبت کرنے پر تیار بیٹھے ہیں۔ اردگان حکومت نے آئینی ترمیم کے تنازع میں پڑنے کے بجائے ملک میں ریفرنڈم کرا لیا جس کا مقصد 1982ء کے فوج کے تیار کردہ آئین کو تبدیل کرنا ہے۔ ترکوں نے ریفرنڈم میں جوق در جوق حصہ لیا۔ ریفرنڈم کے نتائج ججوں اور جرنیلوں کے لئے ناقابل برداشت تھے۔ بعید نہیں تھا کہ فوج سابق طالع آزماؤں کی طرح اور حسب سابق جمہوری حکومت کو عدنان مندریس کی حکومت جیسے انجام سے دوچار کر دیتی لیکن ایسی جرأت اس لئے نہ کر سکی کہ اسی سال فروری 2010ء کو حکومت نے مسلح افواج کے تینوں سابق سربراہان جنرل دوگان، ائر مارشل ابراہیم فرطانہ اور ایڈمرل اوزون کو ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا۔ ان جرنیلوں نے 2003 میں اردگان کی پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹانے کی کوشش کی تھی۔ حکومت نے ان کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا، ریٹائر ہوئے تو اندر کر دیے گئے۔ ان کے سات ساتھیوں پر بغاوت کا مقدمہ درج اور فرد جرم عائد ہو چکی ہے جس کی پاکستان کی طرح ترکی میں بھی سزا موت ہے۔ ان گرفتاریوں پر جرنیل تلملا رہے ہیں لیکن اپنے سابقوں کے انجام سے عبرت بھی پکڑ رہے ہیں۔ حالیہ ریفرنڈم میں 1980 کی فوجی بغاوت کے کرداروں پر مقدمہ چلانے کی رعایت بھی ختم کر دی گئی ہے۔ جلد اس بغاوت میں ملوث ملزم بھی کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ جرنیل ریفرنڈم اور مسلح افواج کے سابق سربراہوں کی گرفتاریوں سے راہِ راست پر آ گئے ہیں۔ ترکی میں فوجی بغاوت کے دروازے حقیقت میں بند ہو گئے ہیں، ہمارے ہاں بدستور وا ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں، صدر زرداری فوج کے سپریم کمانڈر ہیں ان پر مقدمہ کیسے چل سکتا ہے! سپریم کمانڈر کی اتھارٹی ملاحظہ فرمائیے، آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کر کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہ کرایا جا سکا۔ کیری لوگر بل کے حوالے سے جیسا بھی سہی معاہدہ ہوا فوج نے زبردست تنقید کی۔ سپریم کمانڈر اور ان کی پارٹی حکومت خاموش رہے۔ آج فوج کہتی ہے شمالی وزیرستان میں اپریشن نہیں کریں گے تو سپریم کمانڈر اور گیلانی پورے زور سے کہتے ہیں‘ نہیں کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی مرضی سے کریں گے تو پھر جوشیلے انداز میں یہ بھی کہتے ہیں اپنی مرضی سے کریں گے۔ سپریم کمانڈری کیا صرف مقدموں سے استثنیٰ کے لئے ہی ہے؟ طالع آزماؤں کے راستے روکنے کے لئے حکومت کے پاس ایک بھاری پتھر موجود ہے گو موجود اعلیٰ فوجی قیادت سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، موجودہ حکومت کا اڑھائی سالہ مستقبل محفوظ ہے لیکن جمہوریت کا مستقبل محفوظ نہیں۔ آپ 77ء کے باغیوں پر ہاتھ ہولا رکھنا چاہتے ہیں وہ آپ کی مرضی، جہاں بینظیر کے قاتلوں کو معاف کیا وہیں ان کے والد کو پھانسی لگانے والوں کو بھی نظر انداز کر دیں۔ 1999 سے 2007 تک بار بار آئین شکنی کے مرتکب ہونے والوں کو تو کٹہرے میں لے آئیں۔ جنرل ضیاء الدین کو ہیوی مینڈیٹ کے حامل وزیراعظم نے آرمی چیف بنایا۔ کیا جنرل ضیاء الدین انکار کر دیتے؟ انہوں نے Obey کیا تو طاقت کے نشے میں چور جرنیلوں نے بغاوت کر دی۔ عجب قانون سے آئین کی پاسداری کرنے والے کا کورٹ مارشل اور آئین توڑنے والے حکمران بن گئے۔ جنرل ضیاء الدین نے جن (ر) جرنیلوں کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کیا ہے ان کو کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ یہ جمہوریت کے بہترین مفاد میں ہے جس سے جمہوریت پر شبِ خون مارنے کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے۔
No comments:
Post a Comment