جمعرات ، 25 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 15 گھنٹے 57 منٹ پہلے شائع کی گئی
نامور سیاستدان کے ہاں آخری عمر میں لڑکا پیدا ہوا تواس نے تعویز گنڈا کرنے یا جنتر منتر پڑھنے والے کو خوش ہوکر کہا ” اوپر والے نے مجھے دنیا کی سب سے بڑی خوشی تمہارے توسط سے دکھائی ہے مانگو کیا مانگتے ہو، مَجھ، گاں، پرمٹ، لائسنس، گاڑی، گھر‘ جائیداد، نقدی ،ویزہ جو چاہو مانگو“۔ سیاسی سادھو فقیر نے کہا” مجھے جُھرلو دے دو“ سیاستدان نے وضاحت طلب نظروں سے پوچھا”کیا دیدوں“....” وہی جھرلو جو آپ ہرجگہ پھیرتے ہیں۔ خصوصی طور پر الیکشن جیتنے کیلئے“۔ سیاستدان ساری جائیداد تو دے سکتا ہے جھرلو نہیں کیونکہ جھرلو سے جائیدا بنائی جاسکتی ہے۔
جھرلو میں بڑی طاقت ہے۔ یوں سمجھئے آ ج کے دور میں سیاستدانوں کے پاس جھرلو کی حیثیت اور اہمیت پرانے وقتوں کے الٰہ دین کے چراغ سے سوا ہے۔ یوں تو جھرلو ہر طبقے کے پاس موجود ہے۔ فوج کے پاس بغل میں دبائی جانیوالی چَھڑی، ججوں کے پاس آرڈر آرڈر والی ہتھوڑی، وکیلوں کے پاس کالے کوٹ، ماسٹروں پروفیسروں کے پاس ٹیوشنوں اکیڈیمیوں اور سالانہ نتائج اورسرکاری ملازمین کے پاس اختیارات کی صورت میں ، ہماری اداکاراﺅں کے پاس بھی جھرلو موجود ہے کس صورت میں، خود انہیں بھی علم نہیں۔
سب سے بڑا فوجی، جھرلو کو جب استعمال کرنے کی ضروت محسوس کرتا ہے تو کور کمانڈر کے ذریعے جھرلو کی شکتی ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر کے جھرلو میں منتقل کردیتا۔اس کی آگے مرضی یہ شکتی کیپٹن کے حوالے کرے یا صوبیدار کے۔ یہ شکتی وزیراعظم کے جھرلو پر بھی بھاری پڑ جاتی ہے سامنے بریگیڈ جاوید اقبال یا جنرل خواجہ ضیاءالدین بھی ہوں تو ان کے جھرلو کی شکتی ایک کیپٹن یا صوبیدار کے جھرلو کی شکتی میں صلب ہوجاتی ہے.... پاکستان میں عرصہ سے جج حضرات جھرلو استعمال کرتے آئے ہیں۔ پہلا جھرلو جسٹس منیر اور سب سے بڑا جھرلو ڈوگر صاحب نے پھیرا۔ درمیان میں مارشلاﺅں کو جائز قرار دینے اور بھٹو کو سزاکے موت سنانے جیسے جھرلو بھی پھرتے رہے۔ پاکستان میں دیانتدار وکلا کی اکثریت ہے تاہم چند ایک بد نام زمانہ وکلا کے کمالات اور جمالات“ کے باعث پورے طبقے کا چہرہ گہنا رہا ہے۔ اکبر الہ آبادی خود وکیل تھے انہیں شاید آج کے ان وکلا کے کردار کا ادراک ہوگیا تھا جو پوری برادری کیلئے کلنک کا ٹیکہ بن چکے ہیں۔ان کیلئے ہی شاید اکبر الہ آباد ی نے کہا تھا....
پیدا ہوئے وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہوگئے
خواتین کو زیورات جان کی طرح عزیز ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں کو جھرلو جان سے بھی زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ بنیا اپنی دولت تجوری میں رکھ کر دن میں سو بار اس پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ اکیسویں صدی کا سیاستدان اس الماری پر سوا سو بار ہاتھ پھیرتا ہے جس میں غلاف میں لپٹا جھرلو رکھا ہوتا ہے۔ عموماً سیاستدان جھرلو آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کیلئے ‘ انتخابات کے موقع پر یا کسی آڑے وقت میں نکالتے ہیں۔ اس سے کام لیا اور رکھ دیا۔ سیاستدانوں کے جھرلو کا کمال اس کی ماضی گریز قوت ہے۔ یہ سامنے پڑا ہو تو انسان کا سوری !سیاستدان کا ماضی سے رابطہ بالکل ختم ہوجاتا ہے۔اسے یاد نہیں رہتا کہ کل اس نے کہا تھا، نواز شریف نے اڑھائی سال میں کم از کم بیس بار تو کہا ہوگا کہ حکومت پر اعتبار نہیں اور اتنی ہی بار جھرلو کی برکت سے ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاﺅس سے آنیوالوں فونوں پر ڈھیر اور ملاقاتوں پر زیر ہوگئے۔ شاید اسلام آباد والوں کے جھرلو زیادہ پاور فل ہیں۔12نومبر کو پارلیمنٹ میں ریفارمڈ جی ایس ٹی بل پیش ہوا تو مولانا فضل الرحمن کی پارٹی نے اس کی مخالفت کی غفوری حیدری نے فرمایا یہ ڈرون حملہ ہے اس کی حمایت نہیں کرسکتے۔22نومبر کو حضرت مولانا نے زرداری اور گیلانی سے ملاقات کی12 سے 22نومبر کے دوران حکومت نے مولاناشیرانی کو اسلامی نظریہ کونسل کا چیئر مین بنادیا تھا۔ ملاقات میں ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم نے مولانا کی جیب سے ان کا جھرلو نکال کرسامنے رکھا ہو تو مولانا نے جی ایس ٹی پر آمین کہہ دیا۔ ق لیگ نے بھی مخالفت کی تھی ان کے حامد یار ہراج کو بھی حکومت نے مہاراج بنادیا ہے چودھری شجاعت کی تردید سر آنکھوں پر جھرلو کی برکت سے ق لیگ جی ایس ٹی بل کی” مخالفت“ یوں کرے گی کہ ووٹنگ کے دوران واک آﺅٹ کرجائے گی۔ بل سادہ اکثریت سے پاس ہونا ہے۔ نواز شریف نے چند روز قبل ایک بار پھر جھرلو پر ہاتھ رکھ کر عہد کیا ہے کہ وہ حکومت کو گرانے کی کسی کوشش میں شامل نہیں ہونگے۔ دوسروں کو رام کرنے اوراپنا ہمنوا بنانے کیلئے زرداری صاحب کو شاید چمکتا دمکتا جھرلو ہمہ وقت اپنے سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ زرداری کے جھرلو برداروں میں بابر اعوان‘ فیصل رضا عابدی، سلمان تاثیر، فوزیہ وہاب اہم ترین ہیں ن لیگ میں احسن اقبال، رانا ثناءاللہ اور پرویز رشید کسی اور کوجھرلو برداری میں آگے نہیں آنے دیتے۔ ظفر اللہ جمالی کل تک مشرف کے جھرلو بردار تھے آج پگارا کے ہیں۔ ناہید خان محترمہ کی جھرلو بردار تھیں آج صفدر عباسی ان کے اور ناہید خان‘ صفدر عباسی کے جھرلو بردار ہیں۔ مشرف پہلے وردی پھر صدارت بالآخر ملک سے گئے۔ اِدھر اُدھر ان کا جھرلو گم اور ساتھی غائب ہوگئے جب جھرلو ہی نہیں تو جھرلو بردار کہاں؟ زرداری صاحب نے نواز شریف سے بڑے وعدے اور معاہدے کئے۔ وہ ان سے اس لئے مُکر گئے کہ یہ کسی جھرلو کو سامنے رکھ کر نہیں کئے گئے تھے۔ ہمارے اکابرین حکومت، سیاست اور جمہوریت کا جھرلو پر پختہ یقین ہے۔ حکمرانوں، ججوں ، جرنیلوں اور بیورو کریٹس نے آئین پر حلف لیا اور اکثر نے حلف توڑنے سے گریز نہیں کیا۔کیا یہ قوم و ملک کے بہترین مفاد میں نہیں کہ یہ لوگ جھرلو پر حلف لیں۔ جھرلو جو ان کو جان مال اور جائیدادسے بڑھ کر عزیز ہے کم از کم اس پر لیا گیا حلف تو نہیں توڑیں گے۔ کورٹ کچہریوں پنچائتوں اور روزمرہ زندگی میں اکثر لوگ جھوٹ بولتے اور جھوٹ پر قسمیں اٹھاتے اور اٹھواتے ہیں۔ کوئی ماں کی قسم کھاتا ہے تو کوئی اولاد کے سر پر ہاتھ رکھ کر یقین دلاتا ہے۔کیوں نہ سب جھرلو کی قسم کھائیں اور اس پر ہاتھ رکھ کر وعدے معاہدے کریں اور یقین دلائیں۔ جُھرلو کی قسم اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔
No comments:
Post a Comment