About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, November 6, 2010

قانونی کرپشن آخری قسط

7-11-10
 فضل حسین اعوان
 کرپشن کی کئی قسمیں ہیں۔ سب سے خطر ناک اور تباہ کن اختیارات کی کرپشن ہے۔ سفارش بھی کرپشن کے زمرے میں آتی ہے۔ سفارش سے کہیں نہ کہیں کسی کی حق تلفی ضرور ہوتی ہے۔ بغیر استحقاق کیلئے مفاد حاصل کرنے کیلئے کسی کو رقم تحفہ یا کسی بھی صورت میں کوئی ادائیگی بھی کرپشن ہے۔ آج اختیارات کی کرپشن نے ملک کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ جتنی کرپشن آج ہورہی ہے اس کی پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی نظیر ہو۔موجودہ حکومت کاخمیر ہی این آر او کی کرپشن سے اٹھا ہے۔ سٹیل مل میں 26 ارب روپے کی لوٹ مار کی گئی ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے 300 ارب سالانہ کرپشن کی نشاندہی کی ہے۔سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی وزارت خزانہ کے دور میں کہا تھا کہ صرف ایف بی آر میں سالانہ 500 ارب کی کرپشن ہوتی ہے۔ شوکت ترین کے بیان کے تناظر میں ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرانسپرنسی نے موجودہ حکومت کی سائیڈ ماری ہے۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ پی آئی اے، پی ایس او اور او جی ڈی سی میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کرپٹ افراد تعینات کئے گئے ہیں۔ یہ اختیارات کی کرپشن کی بد ترین مثال ہے۔
وزیراعظم گیلانی نے دو روز قبل پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اگر متفق ہوتو ارکان پارلیمنٹ کو پلاٹ دئیے جاسکتے ہیں۔نجانے کس کے من میں پلاٹوں کے حصول کی خواہش نے کروٹ لی کہ گیلانی صاحب اس خواہش کی تکمیل پرتُل گئے۔ان کا یہ بھی فرمان ہے کہ محترمہ نے ان سے پارلیمنٹرین کو پلاٹ دینے کی خواہش ظاہر کی تھی اس وقت موصوف سپیکر اور محترمہ وزیراعظم تھیں، بقول گیلانی محترمہ نے کہا تھا کہ ابتدا اپوزیشن سے ہونی چاہیے۔ گیلانی صاحب کیلئے محترمہ کی یہ ایسی وصیت ہے جس کی صداقت پر کم از کم کسی پارلیمنٹرین کو تو شبہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے سب سے” بڑے خیر خواہ“ حاجی عدیل کی حسرت پاس ملاحظہ فرمائیے، کہتے ہیں پلاٹ نہیں دیتے تو قبر کیلئے جگہ دے دیں۔ارکان پارلیمنٹ کو پلاٹ ملے تو ایم پی ایز کا کیا قصور؟ وہ بھی پورا استحقاق رکھتے ہیں۔ وزیراعظم جو کرنے جارہے ہیں یہ بھی کرپشن ہے۔کمشن کی طرح اسے لیگل یا قانونی کرپشن قرار دیاجائے گا۔ کرپشن بلا شبہ کرپشن ہے قانونی ہویا غیر قانونی۔ تاہم قانونی قرار دینے سے اس زمرے میں آنے والے کرپٹ لوگ قانون کے شکنجے میں نہیں آسکتے ۔
 قانونی کرپشن میں غیر ملکی حکمرانوں کی طرف سے صدر، وزرائے اعظم اور دیگر عہدیداروں کو دئیے گئے تحفے بھی شامل ہیں۔ ہمارے اکثر حکمرانوں نے لالچ کے باعث قانونی کرپشن کو بھی قابلِ گرفت کرپشن بناڈالا۔ صدر اور وزیراعظم کو ملنے والے گفٹ قوم کی امانت قرار دئیے جاتے ہیں جن کو قومی خزانے میں جمع کرایا جانا ہوتا ہے۔ تاہم جس کو تحفہ ملے وہ مناسب قیمت ادا کرکے ذاتی استعمال میں لاسکتا ہے۔صدر اور وزیراعظم ملک کے انتہائی ذمہ دار عہدے ہیں۔ ان منصبوں کا تقاضا ہے کہ ان کی حامل شخصیات بھی انتہائی ایماندار دیانتدار اور قومی خزانے کی امین ہوںلیکن سینٹ کی قائمہ کمیٹی کی ایک رپورٹ پر ہلکی سی نظر ڈالیئے تو اکثر راہبرانِ قوم کا کردار ڈھیلا ڈھالا نظر آتا ہے۔صدر زرداری کو کرنل قذافی نے 2بی ایم ڈبلیو اور دو بیرون ملک تیار ہونیوالی ٹویوٹا جیپیں تحفے میں دیں صدر صاحب 93لاکھ ادا کرکے اپنے گھر لے گئے ۔صدر ضیا سے مشرف اور شوکت عزیزتک قوم کے خیر خواہ 160ملین روپے کے 3039 گفٹ گھروں کو لے گئے۔بلخ شیر مزاری ،ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان نے ایک بھی تحفہ گھر لے جانا پسند نہیں کیا وزیراعظم گیلانی بھی گزشتہ سال تک کوئی گفٹ اونی پونی قیمت میں گھر نہیں لے گئے شاید ان کو ” کسی نے“ گھر نہ لے جانے دئیے ہوں۔
 شوکت عزیز مہمان اداکار کے طورپر پاکستان کے دوسال وزیراعظم رہے جاتے ہوئے1126 تحفے ساتھ لندن لے گئے۔ گورنر نیپال نے ان کو ریشمی سکارف دئیے۔ شوکت عزیز نے 25,25 روپے ادا کرکے سکارف اپنے استعمال کیلئے رکھ لئے جی ہاں! 25 روپے میں فی سکارف، ٹونی بلیئر کی اہلیہ کی طرف سے دئیے گئے بیگ کی قیمت300اور شہزادہ چارلس کے ایک گفٹ کی قیمت 200 روپے لگوائی گئی۔ شوکت عزیز کی ” اعلیٰ ظرفی“ دراصل ہماری اشرافیہ کے کردار اور رویے کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ شراب پیمانے میں ہو یا چُلو میں حرام ہی رہے گی۔ خنزیر کو جس طریقے سے بھی ذبح کرلیں، اس کو روسٹ کرکے کھائیں قیمہ بنا کر کھائیں کباب یا باربی کیو، حلال ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کرپشن کرپشن ہے۔ قانونی اور غیر قانونی کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو صدر وزرائے اور بیو روکریٹس قوم کی امانت گھروں کو لے گئے ان میں سے اکثر بقید حیات ہیں۔ جودنیا میں نہیں رہے ان کے لواحقین، قومی امانتیں ان کی قیمت ایک ہزار ہے یا ایک کروڑ، اگر اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں تو مارکیٹ ویلیو کے مطابق ادائیگی کردیں یا یہ گفٹ واپس توشہ خانے میں جمع کروا دیں۔ تاکہ ان کی سرِعام بولی ہو۔کئی تحائف یقینا نوادرات میں شامل ہونگے۔کھلی بولی میں ہوسکتا ہے کہ ان کی قیمتیں کروڑوں میں لگ جائیں۔ ایوب خان اور بلخ شیرازی کی اولادیں کم از کم اس معاملے میں تو سرفخر سے بلند کرکے چل سکتی ہیں کہ ان کے والد نے تحفوں کی صورت میں ملنے والی قوم کی امانت قومی خزانے کو لوٹا دی تھی دیگر کا کیا خیال ہے!

No comments:

Post a Comment