About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, November 13, 2010

درگزر

: ہفتہ ، 13 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 20 گھنٹے 7 منٹ پہلے شائع کی گئی
حضرت عمرؓ کی محفل میں دو نوجوان داخل ہوئے اور ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے کہا ”یہ ہمارے والد کا قاتل ہے“ حضرت عمرؓ نے پوچھا تو اس شخص نے اعتراف کر لیا، حضرت عمر نے فرمایا ”پھر تو قصاص میں تجھے بھی قتل کیا جائے گا“۔ عام شخص سے ملزم، پھر مجرم اور قاتل بننے میں صرف چند لمحے لگے ہوں گے۔ مجرم نے خلیفہ رسول کے فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا تاہم تین دن کی مہلت اور اجازت مانگی کہ صحرا میں زمین کے فرش پر اور آسمان کی چھت تلے زندگی کی تلخیوں سے نبرد آزما وفا شعار بیوی اور معصوم بچوں کو بتا آﺅں کہ میں قتل کر دیا جاﺅں گا۔ سیدنا عمرؓ نے کہا ”کوئی ضمانتی دے جاﺅ“ اسے تو کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ پھر ضمانت کون دیتا۔ یہ کوئی درہم و دینار کی ضمانت نہیں تھی۔ جان اور 
زندگی کی ضمانت تھی۔ صحابہ کرامؓ کی محفل پر خاموشی طاری ہو گئی۔ حضرت عمرؓ نے نوجوانوں سے کہا کہ اسے معاف کر دو نوجوان نے معاف کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بعد خلیفہ دوم نے مجمعے سے پوچھا ”کوئی ہے جو اس اجنبی کی ضمانت دے“۔ حضرت ابوذر غفاریؓ بڑھاپے کے باعث بھی بڑے وقار سے اٹھ کر کھڑے ہوئے اور فرمایا ”ہاں میں اس کی ضمانت دیتا ہوں“.... حضرت ابوذرؓ کی ضمانت پر اس شخص کو چھوڑ دیا گیا۔ تین دن گزرے۔ شام ڈھل رہی تھی۔ اجنبی کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ سزا کا مکمل اہتمام ہو چکا تھا۔ وہ نہیں تو ابوذرؓ کی گردن تن سے جُدا ہونا تھی۔ حضرت ابوذرؓ، حضرت عمرؓ کو دل و جان سے زیادہ عزیز تھے لیکن معاملہ ”این آر او“ کا نہیں انصاف کا تھا۔ صحابہ کرامؓ کی نظریں مغرب کی طرف ڈوبتے سورج کی طرف تھیں، آج سورج کچھ زیادہ جلدی میں غروب ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ شام کے سایوں کی طرح مایوسی اور ناامیدی کے سائے بھی پھیل رہے تھے۔ یہ اس شام اور سزا پر عملدرآمد کا آخری لمحہ تھا کہ اہل مدینہ نے دور سے اٹھتی ہوئی گرد دیکھی جو انہی کی طرف آ رہی تھی۔ گرد کے بادلوں سے وہی اجنبی نمودار ہوا جو اپنا گھوڑا سرپٹ دوڑاتا ہوا ان تک آ پہنچا۔ گھوڑے سے اترا اور اپنا سر قلم ہونے کے لئے پیش کر دیا۔ 
حضرت عمرؓ نے دھول اور مٹی میں اٹے اجنبی سے پوچھا ”اگر تو لوٹ کر نہ آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا؟“ اجنبی نے جواب دیا میں اپنے بچوں کو پرندوں اور چوزوں کی طرح صحرا میں تن تنہا چھوڑ آیا ہوں وہاں نہ سایہ ہے نہ پانی۔ مجھے یہ ڈر تھا کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے وعدوں کا ایفا اٹھ گیا ہے.... ہم بھی اسی رسول کے امتی ہیں جس کا یہ اجنبی امتی تھا۔ وہ اجنبی وعدے کی خاطر اپنے اہل و عیال کو صحرا میں بے یار و مددگار چھوڑ کر خود کو قتل کرانے کےلئے چلا آیا۔ ہمارے اکابرین ریاست و سیاست جن کی شان و شوکت، عظمت و شکوہ اور مال و دولت دین حق اور پاکستان کی مرہونِ منت ہے۔ وعدوں سے مکر جاتے ہیں حالانکہ وعدوں پر عمل کرنے سے ان کی جان کو کوئی خطرہ ہے نہ اہل و عیال کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا احتمال۔ بھٹو صاحب کے روٹی کپڑا اور مکان کے وعدے۔ ضیا کے 90 دن میں الیکشن، بینظیر نوازشریف کے غربت کے خاتمے، مشرف کے 31 دسمبر 2004 کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے، زرداری کے ججوں کی بحالی کے ایسے وعدے ہیں جن کی ان لوگوں نے مٹی پلید کر کے رکھ دی۔ وزیراعظم گیلانی ہر صبح اٹھ کر قوم سے نیا وعدہ کرتے اور رات کو اس کی دھول اڑا کر سوتے ہیں۔ 
حضرت عمرؓ نے دوسرا سوال حضرت ابوذر سے کیا کہ ”آپ نے کس بنا پر ضمانت دی تھی؟“ جواب تھا مجھے ڈر تھا کوئی یہ نہ کہہ دے کہ دنیا سے خیر اٹھا لی گئی ہے.... ہمارے ہاں خیر اٹھنے اور احسان فراموشی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ غلام محمد نے ان کو گورنر جنرل بنانے والے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت الٹا دی سکندر مرزا سے اقتدار ایوب خان نے چھینا ایوب کو مرزا نے ہی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنادیا تھا۔ بھٹو کو ان کے تراشے ہوئے صنم ضیاءالحق نے پھانسی لگائی، مشرف اپنے محسن نواز شریف پر چڑھ دوڑے، فاروق لغاری نے بہن کہہ کر محترمہ بینظیر بھٹو کی چھٹی کرادی۔
حضرت عمر نے مقتول کے بیٹوں سے پوچھا اب کیا چاہتے ہو دونوں نے روتے ہوئے جواب دیا کہ ہم نے اسے معاف کردیا۔۔اس ڈر سے کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ دنیا سے عفو درگزر کو اٹھا لیا گیا.... ایوب خان نے سکندر مرزا، مشرف نے نواز شریف کو جلا وطن اور ضیاءالحق نے بھٹو کو پھانسی لگاتے وقت عفو درگزر سے کام نہیں لیا۔ تاہم شاہ دولوں کو محترمہ بینظیر بھٹو کی قربانی اور خون تخت تک لے آیا۔انہوں نے یہاں محترمہ کی وصیت پر بھرپور طریقے سے عمل کیا وہیں محترمہ اور نواز شریف کے میثاق جمہوریت کو بھی مقدس دستاویز قرار دے کر غلاف چڑھایا اور اتنی اونچائی پر رکھ دیا کہ کسی کا ہاتھ نہ پہنچ سکے، تاکہ اس مقدس میثاق کی بے حرمتی نہ ہو۔ محترمہ کے قتل کی تحقیقات کی ذمہ داری اپنے ماتحت ”نااہل اداروں“ کے کندھوں سے اتار کر اقوامِ متحدہ کے حوالے کردی۔ شوہر نامدار کہتے ہیں انہیں قاتلوں کا علم ہے لیکن کسی کو بتانے کے بجائے غیر ملکی اداروں کو تحقیقات کیلئے کروڑوں ڈالر ادا کردئیے گئے۔ محترم جمہوریت کو ہی بہترین انتقام قرار دیتے ہیں۔ محترمہ نے یہ فقرہ نجانے کس تناظر میں کہا تھا تاہم ان کے جانشینوں کو اسے محترمہ کے قتل پر ہی صاد کردیا۔

No comments:

Post a Comment