About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, November 21, 2010

جنرل میک آرتھر .... اور ہمارا آج


فضل حسین اعوان ـ 12 جولائی ، 2010

 16 دسمبر 1971ئ کو جنرل عبد اللہ خان نیازی نے جس انداز میں بھارتی جرنیل اروڑہ سنگھ کے سامنے سرنڈر کیا وہ مسلم امہ کے ماتھے پر ایک داغ بن گیا۔ 90 ہزار فوجیوں کا اپنے ازلی دشمن کے سامنے ہتھیار پھینک دینا اسلامی تاریخ کا المیہ ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس سے کہیں بڑے سرنڈر ہوچکے ہیں۔ جاپانی جنرل تویوموکی یاماشےتا نے دوسری جنگ عظیم کے دوران سنگاپور اور ملایا کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ ملایا پر قبضہ کے باعث اسے ٹائیگر آف ملایا کا خطاب دیا گیا۔ 15 فروری 1942ئ کو جنرل یاماشےتا نے 30 ہزار فوجیوں کے زور پر برطانوی قیادت مےں لڑنیوالی ایک لاکھ 30 ہزار سپاہ کو قیدی بنالیا۔ ان قےدےوں میں برطانوی، ہندی اور آسٹریلین فوجی شامل تھے۔ برطانوی تاریخ کا یہ سب سے بڑا سرنڈر تھا لیکن تاریخ اسکے بعد اس سے بھی بڑے سرنڈر کی منتظر تھی۔ امریکی صدر ہیرو ٹرومین کے حکم پر جاپان میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دو ایٹم بم گرائے گئے۔ اگلا ٹارگٹ ٹوکیو تھا۔ وہ اس لئے بچ گیا کہ جاپان نے شکست تسلیم کرلی تھی۔ جاپانیوں سے امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر نے ہتھیار ڈلوائے۔ ہتھیار ڈالنے کی باقاعدہ تقاریب منعقد ہوتی تھیں۔ سب سے پہلی اور بڑی تقریب 2 ستمبر 1945ئ کو خلیج ٹوکیو میں لنگرانداز امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس میسوری پر منعقد ہوئی۔ اسے دنیا بھر میں نشر کیا گیا۔ اس تقریب میں سرنڈر کی دستاویزات پر جاپانی وزیر خارجہ ماموروشیگے اور جاپانی آرمی چیف جنرل یوشی میرو نے شکست قبول کرتے ہوئے دستخط کئے جبکہ فاتح جرنیل کے طور پر امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر نے دستخط کئے۔ اسکے بعد 54 لاکھ جاپانی بری اور 18 لاکھ بحری فوجیوں کو قیدی بنایا گیا۔ یہ ریکارڈ شاید قیامت تک برابر نہ ہوسکے۔ جنرل میک آرتھر کا جاپان کی شکست میں اہم کردار رہا۔ اسے امریکہ میں آج بھی دوسری جنگ عظیم کا ہیرو تسلیم کیا جاتا ہے۔
جاپان کو فتح کرنے کے بعد وہ طویل عرصہ تک جاپان کے معاملات چلاتے رہے۔ ان کے تجربات کا فائدہ اٹھانے کیلئے انہیں جنگ کوریا میں شمالی کوریا کیخلاف عالمی فوج کی کمانڈ سونپی گئی۔ چین شمالی کوریا کی پشت پناہی کرتا تھا۔ جنرل میک آرتھر چین کی کوریا کی جنگ میں مداخلت روکنا چاہتا تھا۔ اس کیلئے اسکی تجویز تھی کہ ایک ایٹم بم چین پر بھی برسا دیا جائے۔ صدر ہیرو ٹرومین کے ضمیر پر شاید ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے کا بوجھ تھا اس لئے کوشش تھی کہ جنگ بندی ہوجائے۔ دوسری طرف جنرل میک آرتھر نے ایوان نمائندگان کے اقلیتی لیڈر جو مارٹن کو خط لکھ کر صدر اور انکے ساتھیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور خود سے چین کو الٹی میٹم بھی دیدیا کہ وہ کوریا سے فوجی دستے نکالے یا امریکہ کے حملے کا سامنا کرے۔ یہ وائٹ ہاﺅس کی جنگ بندی کی کوششوں کو ایک دھچکا تھا۔ صدارتی اختیارت میں مداخلت اور فوج کی پیشہ ورانہ غیرجانبداری کی روایت کو توڑنے کی پاداش میں صدر ہیری ٹرومین نے جنرل میک آرتھر کو کوریا کی کمان سے فارغ کردیا۔ یوں امریکی فوجی ہیرو کا تابناک کیرئیر ناخوشگوار انداز میں اختتام کو پہنچا۔ جنرل مےک آرتھر 1951ئ کو امریکہ پہنچا تو اسکا فوجی ہےرو کے طور پر بھرپور استقبال کیا گیا۔ اس پر اس قدر پھول نچھاور کئے گئے کہ بلدیہ کو مسلسل تین روز تک صفائی کرنا پڑی۔ کانگریس نے جنرل میک آرتھر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی دعوت دی تو ان کی پذیرائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے 30 مرتبہ خطاب اس لئے روکنا پڑا کہ پارلیمنٹیرینز اپنی سیٹوں سے اٹھ کر کلیپ کرتے ہوئے اسے داد دیتے اور خراج تحسین پیش کررہے تھے لیکن ایک بھی سنیٹر یا کانگریس مین نے صدر کے امریکی ہیرو کیخلاف اقدام کی مخالفت نہیں کی۔ یہی ان کے جمہوری اداروں کی مضبوطی کی وجہ ہے۔ جمہوریت کیلئے وہ لوگ کمٹڈ ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ اسکے برعکس ہے۔ بعض سیاستدان اپنے ذاتی مفادات اور چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنے کیلئے جرنیلوں کے قدموں میں جا بیٹھتے ہیں۔ یہی ڈگر رہی تو جمہوریت قطعاً مضبوط اور مستحکم نہیں ہوسکتی۔ جہاں مفاد پرست اور عوام کے ٹھکرائے ہوئے سیاستدان طالع آزماﺅں کو مہم جوئی پر آمادہ کرتے ہیں، وہیں حکمران بھی” اپنے کارناموں اور کمالات سے طالع آزمائی کا راستہ ہموار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ایسے میں ”عالمی قوتوں“ کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اپنے بندے آگے لانے کا موقع مل جاتا ہے۔ حکمران اگر مفاد عامہ کے کام کریں تو عوام کسی بھی آمریت کیخلاف جمہوری حکومت کے لئے ڈھال بن سکتے ہیں لیکن جب عوام ہی حکمرانوں کی پالیسیوں سے نالاں ہوں تو وہ حکومت الٹائے جانے پر سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ ایوب خان، ضیائ الحق اور پرویز مشرف نے حکومتیں اس وقت الٹائیں جب عوامی نفرت ان حکومتوں کیخلاف زوروں پر تھی۔ آج بھی ملاحظہ فرمائیے، حالات ویسے ہی ہیں، عوامی نفرت پھر عروج پر ہے۔ آج کے حکمرانوں پر کوئی ستم ٹوٹا یا آفت آئی تو براہِ راست استفادہ کرنیوالوں کے سوا ماضی کی طرح ان کے حشر پر کوئی آنسو بہانے والا نہیں ہوگا۔ آج بھی طالع آزمائی کے راستے مسدود کئے جاسکتے ہیں۔ حکمران عوامی مفادات کی پالیسیاں ترتیب دیں اور سیاستدان بلاامتیاز کسی بھی طرف سے متوقع مہم جوئی کیخلاف متحد ہوجائیں۔

No comments:

Post a Comment