5-11-10
فضل حسین اعوان ـ
’’سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو، آرمی چیف جنرل گل حسن کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ گل حسن کو جی ٹی روڈ کے ذریعے کار پر لاہور روانہ کیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ ایک اعلیٰ میٹنگ میں شرکت کرنا ہے اور پیشکش کی گئی کہ گورنر اور ایک وزیر کے ساتھ لاہور چلے جائیں۔ یہ 3 مارچ 1972ء کا دن تھا، پنجاب کا گورنر کھر تھا۔ کار میں یہ دونوں صاحبان جنرل کے دائیں بائیں بیٹھ گئے۔ ایک گھنٹے تک گل کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ وہ جبری حراست میں ہیں۔ جب شک کا اظہار کیا تو صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھیوں نے انکی پسلیوں پر پسٹل رکھ دئیے۔ سی این سی کی کار جونہی پنڈی سے لاہور کی طرف روانہ ہوئی عین اسی وقت وزیر خزانہ مبشر حسن کو لے کر ایک ہیلی کاپٹر اوکاڑہ کی طرف محوِ پرواز ہوگیا۔ اوکاڑہ سے جی او سی جنرل ٹکا خان کو ساتھ لیا اور جنرل گل حسن کے لاہور پہنچنے سے قبل ٹکا خان اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔ ٹکا خان پر اپنی طلبی کا مقصد اس وقت واضح ہوا جب انکے کندھوں پر آرمی چیف کے کرائون لگائے جا رہے تھے۔ گل حسن لاہور پہنچے تو ٹکا خان فوج کا چارج سنبھال چکے تھے‘‘۔اس واقعہ کے تناظر میں نوازشریف کے سپیچ رائٹر اور وزیراعظم ہائوس میں نوازشریف اور انکے ساتھیوں کے ساتھ 12 اکتوبر کو جو کچھ ہوا اسکے عینی شاہد نے لکھا ہے کہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنایا گیا تو اپنے احکامات پر عملدرآمد کیلئے نوازشریف نے بھی ایسا کیوں نہ کیا، ویسا کیوں نہ کیا۔ جنرل ضیاء الدین بٹ نے یوں کیوں نہ کیا، ووں کیوں نہ کیا… آرمی چیف سمیت کسی بھی عہدے پر تقرری، تنزلی، سبکدوشی اور برطرفی کیلئے ایک طریقہ کار آئین میں موجود ہے۔ آئینی طریقہ سے تجاوز اور اس سے روگردانی یا صریح انکار بلاشبہ آئین شکنی ہے جس کی سزا کا تعین بھی آئین کے آرٹیکل 6 میں کردیا گیا ہے۔ آئینی ماہرین کا اس پر اتفاق ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے جنرل پرویز مشرف کو سبکدوش کرنے کیلئے آئینی طریقہ اختیار کیا تھا۔ جنرل ضیاء الدین بٹ کی تعیناتی بھی آئینی تھی۔ جب ایک کام آئین کے دائرے میں رہ کر کیا جا رہا ہے تو پھر اس سوال کی گنجائش نہیں رہتی کہ ضیاء الدین کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی باخبر ہونا چاہئے تھا کہ ساتھی جرنیل انہیں قبول بھی کرینگے یا نہیں؟ مشرف کی برطرفی پر عملدرآمد کا طریقہ کار کس نے طے کیا؟… کچھ ’’ماہرین‘‘ کا خیال ہے کہ نوازشریف نے جنرل پرویز مشرف کو اس وقت سبکدوش کیوں کیا جب وہ سری لنکا سے واپس آرہے تھے۔ مشرف جہاز میں تھے یا سری لنکا کے کسی ائرپورٹ پر، انکی طرف سے یا انکے ساتھیوں کی طرف سے آئین شکنی کا کوئی جواز نہیں بنتا اور یہ کہہ دینا کہ جرنیلوں نے نوازشریف کے جنرل آصف نواز اور جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ روئیے کے باعث مزید ایسے اقدامات پر خاموش نہ رہنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ یہ بھی آئین شکنی کی Justification نہیں ہے۔ نوازشریف کے سپیچ رائٹر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ابوظہبی کے سفر کے دوران مجھے اصل منصوبے کا پتہ چل جاتا تو میں پورا زور لگا دیتا کہ وزیراعظم، مشرف کی برطرفی کا حکم ایوان صدر بھیج کر اہل خانہ سمیت عمرے پر روانہ ہوجائیں اور انکی عدم موجودگی میں ایوان صدر سے سیکرٹری دفاع کے ذریعے برطرفی کے حکم پر عملدرآمد کرایا جائے۔ ملتان میں بھی بتا دیا جاتا تو میں وزیراعظم کو عمرے پر جانے کا مشورہ ضرور دیتا‘‘۔ تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ نوازشریف کو انکے ایسے ہی مشیروں نے ڈبویا۔ خطرے کی بو سونگھتے ہی راہِ فرار کے مشورے، اگر آج بھی میاں نوازشریف کے پے رول پر اسی قبیل کے کالم کار اور مشیر ہیں اور یقیناً ہیں تو انکی سیاست کا خدا ہی حافظ! یہ رائیونڈی دسترخوان کے ’’چوگا چنیدگان‘‘ میاں صاحب کو مسلم لیگوں کے اتحاد سے دور رہنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ انسان طاقتوروں کے سامنے بے بس ہوسکتا ہے، قدرت نہیں… ذوالفقار علی بھٹو اور نوازشریف اندھی طاقت کا نشانہ بنے۔ یہ ان سے بدلہ لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ قدرت نے انصاف ضرور کردیا اسکے باوجود بھی انسانی انصاف ناگزیر ہے۔ بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ سویلین آئین شکنوں کا عدالتوں میں ٹرائل کیا جائے۔ آئین شکن جرنیلوں اور انکے ساتھیوں کا خود فوج ٹرائل کرے۔ ملک کا بیڑہ غرق چند جرنیلوں نے کیا ہے فوج نے نہیں… کورٹ مارشل یا فیلڈ کورٹ مارشل کے ذریعے جو بھی سزا دی جائے ٹھیک ہے۔ تاہم عبرت کا نشان بنانے کیلئے جرنیل کی تنزلی کرتے ہوئے اسے میجر بناکر اسکی مدر یونٹ میں چند سال کیلئے تعینات کردیا جائے تاکہ فوج بھی ہمیشہ کیلئے بدنامی سے بچ جائے۔ جنرل مشرف میجر مشرف بنے گا تو کیسا لگے گا۔ ہوسکتا ہے آپ اسے میرا سہانہ خواب سمجھیں کہ ایسا کرنا کس طرح ممکن ہے؟
No comments:
Post a Comment