: ہفتہ ، 06 نومبر ، 2010
$ 700 Million
فضل حسین اعوان
کسی چیز کا نام بدل دینے سے اس کے سٹیٹس میں تغیر آ سکتا ہے نہ اس کی ہئیت میں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ شراب کو شہد اور دودھ کہہ دینے سے اس کا رنگ بدلتا ہے نہ ذائقہ۔ رشید کو رشیدہ اور بابرہ کو بابر کہنے سے کسی کی مردانگی کو کوئی فرق پڑتا ہے نہ ”زنانگی“ کو۔ شیطان کو انسان کہنے سے اس کی شیطانیت پر قطعاً اثر نہیں پڑتا۔ شر کی کوکھ سے خیر جنم نہیں لے سکتی۔ بُرائی کسی صورت میں بھی ہو بُرائی ہی رہتی ہے۔ رشوت، سود، چوری، ڈکیتی، رہزنی اور کرپشن کو جو بھی نام دے لیں یہ ازل سے بُرائیاں اور شیطانی افعال ہیں ان کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج سود کو منافع اور کرپشن کو کمشن قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ضمیر زندہ اور انسان کے اندر غیرت کا مادہ ہو تو جائز اور ناجائز میں واضح فرق نظر آ جاتا ہے۔ دیانتداری اور بددیانتی ، ایمانداری اور بے ایمانی الگ الگ دکھائی دیتے ہیں پھر انسان کی مرضی جس کو چاہے چُن لے۔ بلاشبہ اکثر لوگوں پر دیانت کے مقابلے میں بددیانتی غالب آ جاتی ہے تاہم معاشرے باضمیر، غیرت مند اور ایماندار لوگوں کی بھی کمی نہیں۔ معاشرے میں بھکاری موجود ہیں تو خیرات کرنے والے بھی ہیں۔ سود خور اور کرپٹ لوگ ہیں تو سود کرپشن اور دیگر معاشرتی برائیوں پر لعنت بھیجنے والے بھی ہیں۔ تھوڑی بہت اونچ نیچ کے ساتھ معاشرے میں توازن برقرار رہتا ہے لیکن معاشرہ اس وقت بگڑتا ہے جب اشرافیہ حرام کو حلال اور ناجائز کو جائز قرار دے ڈالے۔ جب حکمران اور رہبران قوم بھی سنگدلانہ، ظالمانہ، بے رحمانہ اور انصاف کش رویہ اپنا لیں تو معاشرے میں ہلچل، بے چینی، بے عملی اور ٹوٹ پھوٹ برپا ہو کر رہتی ہے جو آج کل ہر طرف نمایاں ہے۔
جائز اور ناجائز کمائی کا ترازو یہ ہے کہ جو کچھ آپ کے پاس بغیر محنت کے آ جائے وہ جائز نہیں ہو سکتا۔ حکومت اور اداروں کی طرف سے جب تنخواہ اور دیگر مراعات ملتی ہیں تو جہازوں، ٹرینوں، ٹینکوں، توپوں، آبدوزوں پاور پراجیکٹس اور کسی بھی چیز کی خریداری میں کمیشن سراسر حرام اور ناجائز ہے۔ جتنا کوئی کمشن لیتا ہے اربوں میں، کروڑوں میں یا لاکھوں اور ہزاروں میں وہ اس ادارے کے حق پر ڈاکہ اس کے ساتھ غداری ہے، اگر پاور پراجیکٹ سے 2 ارب روپے کمیشن لیا گیا اور کرپشن کے اس پیسے سے اپنے بچوں کی جائیداد بنا لی تو گویا جہنم میں گھر بنا لیا۔ اسی دو ارب سے سولر یا وِنڈ انرجی کے پراجیکٹس لگ سکتے ہیں۔ آٹے پر حکومت اگر 100 روپے من سبسڈی دیتی ہے تو کوئی نہیں کہتا کہ وہ سبسڈی والا آٹا نہیں خریدے گا۔ اس معاملے میں وہ قوم کے ساتھ ہے جب کروڑوں روپے کا پلاٹ ایک بار نہیں بار بار ملتا ہے تو بہت کم ہیں جو کہتے ہیں یہ چونکہ پوری قوم کو نہیں مل رہا ہم بھی کیوں لیں۔ اکثر جج، جرنیل، صحافی اور بیورو کریٹس پلاٹ لئے جا رہے ہیں اور بیچ کر رقم بنک میں رکھتے ہیں یا کاروبار میں لگا دیتے ہیں۔
موجودہ دور تو کرپشن کے عروج کا دور ہے۔ لاکھوں کروڑوں کی کرپشن کا دور لد گیا۔ اب اربوں کی بے ایمانی ہوتی ہے۔ ایک برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ موجودہ حکومت میں زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے 30 کروڑ پا ¶نڈز کی بیرونی امداد کا کوئی حساب موجود نہیں، اسی ماہ کے نیوز ویک نے امریکی سفارت خانے کے حوالے سے چند سطریں شائع کی ہیں۔
Estimated amount received from FODP (Friends of Development of Pakistan) donor countries that Pakistan was seemingly unaware of. This resulted in an embarrassing exchange between President Zardari and US. special envoy Holbrooke.
(فرینڈز آف پاکستان ممالک سے پاکستان نے 70 کروڑ ڈالر وصول کئے، وہ کہاں گئے؟ اس سے پاکستان میں بے خبری پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ہالبروک اور صدر زرداری کے مابین حیران کن اور پریشان کن گفتگو ہوئی)۔ یہ سات سو ملین ڈالر خدا جانے کہاں گئے؟ آپ اپنے آپ سے پوچھئے اور ساتھیوں سے بشمول جیالوں، متوالوں کے ۔۔۔ سب کا ایک ہی جواب ہو گا۔ ہاں وہی جو آپ نے کہہ دیا ہے (جاری ہے)
No comments:
Post a Comment