About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, November 27, 2010

وہ شمع اجالا جس نے کیا

27-11-10
فضل حسین اعوان ـ 
آج ہم پاکستانیوں کی شان و شوکت، جاہ و جلال، عہدے افسریاں، وزارتیں مشاورتیں، جرنیلیاں، کرنیلیاں، آزادی، عزت، وقار، سیاست امارت اور اقتدار سب پاکستان کے صدقے ہے جس کو اس میں شک ہے تو وہ بھارت جا کر اپنے جیسوں کا حال دیکھ لے۔ اگر مطمئن ہو جائے تو وہیں جا بسے۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ کچھ لوگوں کو پاکستان میں اسلام کا بول بالا ہضم نہیں ہو رہا، کوئی سیکولرازم کی بات کرتا ہے، کوئی اقلیتوں کے حقوق کا علمبردار بن کر اپنی سیاست اور صحافت چمکاتا ہے۔ پاکستان میں اقلیتیں کسی بھی ملک سے زیادہ محفوظ ہیں۔ پڑوسی بھارت میں دیکھ لیجئے، وہاں مسلمان محفوظ ہیں نہ سکھ اور عیسائی، ان کو ان کے گھروں اور عبادت گاہوں سمیت جلا دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسے واقعات کبھی نہیں ہوئے۔ 
آج کل توہین رسالت کیس میں عیسائی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت برننگ ایشو ہے۔ توہینِ رسالت پر کیا سزا ہونی چاہئے، قید، سزائے موت ملزم کو مکر جانے یا معافی مانگنے پر معاف کر دینا چاہئے، یہ علمی نہیں جہالت اور بعض لوگوں کی خباثت پر مبنی بحث ہے۔ توہین رسالت کی سزا، صرف اور صرف موت ہے۔ اس کا ارتکاب کوئی مسلم کرے یا غیر مسلم، مرد ہو یا عورت، اس کے معصوم بچے ہوں یا معذور۔ کوئی محمود ہے یا ایاز، امیر ہے یا فقیر، بے تاثیر ہے یا بے ثنا، جامدی ہے یا بے آسرا، کسی کی کیا اوقات اور حیثیت کہ ایک صریح حکم کے بارے میں اپنی رائے دے اور اسے مقدم بھی سمجھے۔ ان کی رائے جاننے کی ضرورت نہیں ان کا عقیدہ پوچھا جائے۔ یوں تو یہ بھی بظاہر مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر گنگناتے ہیں 
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
یہ کہہ کر بھی توہین رسالت قانون ختم کرنے کی بات کرتے ہیں، توہین رسالت کے ملزم کو چھوڑ دینے پر اصرار کرتے ہیں تو اندازہ کر لیجئے ان کا ایمان کتنا کامل ہے۔ ان کو بہت سے واقعات یاد آ رہے، حضور نے طائف والوں کو معاف فرما دیا، فتح مکہ پر عام معافی کا اعلان کیا، رحمت للعالمین نے خود پر کوڑا پھینکنے والی کو اور اپنے پیارے چچا کا کلیجہ چبانے والی کو معاف کر دیا .... لیکن وہ واقعات ان کی نظروں سے نہیں گزرے یا جان بوجھ کر ان کا تذکرہ نہیں کرتے کہ حضور نے فتح مکہ پر کچھ لوگوں کا نام لے کر ان کو معاف نہ کرنے کا اعلان فرمایا تھا۔ عصماءبنتِ مروان حضور کی شان میں گستاخی کرتی رہتی تھی حضور نے فرمایا اس کا کون سر قلم کرے گا، حضرت عمیرؓ بن عدی نے ملعونہ کو قتل کیا اور سر لا کر حضور کے قدموں میں رکھ دیا۔ توہین رسالت کے مجرم کو تو خود رسالت مآب نے معاف نہیں کیا آج کے بزعم خویش دانشور کیوں ایسا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آسیہ بی بی نے پولیس انکوائری کے دوران اقرار کیا، اپنے ہم مذہب اکابرین کی موجودگی میں بھی اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگی اب یکسر مکر گئی ہے۔ پھر بھی کچھ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ اس کے انکار کے باوجود بھی اسے سزا دینے پر کیوں اصرار ہو رہا ہے۔ اس کیوں کا جواب ہے کہ یہ لوگ اپنی اصلاح کریں۔ توہین رسالت کے مجرم کو بچاتے بچاتے خود بھی توہین رسالت کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں۔ نہ جب تک کٹ مروں خواجہ بطحا کی حرمت پر، کا عملی نمونہ بن جائیں اپنے بارے میں یہ تاثر نہ دیں، 
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
نگاہ و دل جو مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
ملک میں قتل در قتل ہوتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور بعض صورتوں میں انصاف کے حصول میں ناامیدی اور بے یقینی ہے۔ قتل کا فیصلہ چند ماہ میں ہو جائے تو بہت سے انتقامی اور جوابی قتل و غارت سے بچا جا سکتا ہے۔ آج توہین رسالت قانون کے خاتمے کی بات ہو رہی ہے۔ غازی علم الدین کو یقین ہوتا کہ راج پال کو توہین آمیز کتاب شائع کرنے پر موت کی سزا مل سکتی ہے تو وہ شاید انتہائی قدم نہ اٹھاتا۔ آج توہین رسالت کا قانون موجود ہے۔ آسیہ بی بی نے اس کا ارتکاب کیا تو مقامی لوگوں نے اسے قانون کے حوالے کر دیا۔ قانون موجود نہ ہوتا تو اب تک مقامی کئی غازی علم الدین شانِ رسالت میں گستاخی کا قرض اتار چکے ہوتے۔ نام کے مسلمانوں کو اپنا ایمان تازہ کرنے کے لئے آج مولانا ظفر علی خان کے یومِ وفات پر ان کی نعت کے یہ اشعار ضرور پڑھ لینا چاہئیں۔ 
وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اِک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
رحمت کی گھٹائیں پھیل گئیں افلاک کے گنبد گنبد پر
وحدت کی تجلی کوند گئی آفاق کے سینا زاروں میں


No comments:

Post a Comment