بدھ ، 03 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان
امریکہ اپنی جنگیں جدید ترین اسلحہ اور تربیت یافتہ افواج کے ساتھ ساتھ میڈیا کے زور پر بھی لڑ رہا ہے بلکہ اس کی جنگوں کا زیادہ تر دارومدار میڈیا پر ہے۔ امریکہ میڈیا کے ذریعے پہلے عالمی رائے عامہ کو متاثر کرتا ہے پھر یلغار اور بارود سے وار۔ عراق پر حملے سے قبل وسیع تر تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کا میڈیا کے ذریعے بھرپور پراپیگنڈہ کیا۔ افغانستان پر حملے کا جواز یہ گھڑا گیا کہ اس نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی اور اسامہ کو میڈیا کے ذریعے نائن الیون کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا تھا۔ طالبان قیادت سے اس دور میں آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل ضیاء الدین بٹ ملے تو ملا عمر نے کہا کہ ان کی حکومت نے امریکہ سے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کے مستقبل کا فیصلہ پانچ ججوں سے کرالیتے ہیں ان میں سے ایک ایک پاکستان، سعودی عرب اور امارات سے ہوسکتا ہے۔لیکن امریکہ نے طالبان کی یہ پیشکش ٹھکرادی۔ مغربی میڈیا نے تاثر یہی دیا کہ طالبان حکومت اسامہ بن لادن کے معاملے پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ عالمی میڈیا پر امریکہ کا مکمل کنٹرول ہے جسے استعمال کرتے ہوئے وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بھی کردکھاتا ہے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کسی شخصیت ملک قوم یا طبقے او ر حلقے کے بارے میں نفرت یا ہمدردی کے جذبات پیدا کردیتا ہے۔چند ماہ قبل پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک خاتون کو مردوں کے مجمع میں مردوں نے پکڑ کر کوڑے لگائے۔ اس واقعہ کی ویڈیو مغربی میڈیا سے درآمد ہوکر پاکستان پہنچی۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں یہ ویڈیو ہر چینل نے بلا مبالغہ سینکڑوں دفعہ روزانہ دکھائی۔اس ویڈیو سے طالبان کے ظالم اور جابر ہونے کا تاثر ابھرا یہی اس ویڈیو کا مقصود تھا۔ چند ماہ بعد یہ ویڈیو بوگس ثابت ہوگئی جن لوگوں نے فلمائی تھی وہ پکڑے گئے۔ ابو غریب، گوانتاموبے اور بگرام کے عقوبت خانوں میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوتا ہے مغربی میڈیا نے اس طرف کبھی دھیان نہیں دیا۔ جنگ کے دوران عراق اور افغانستان میں مزاحمتی گروپوں کی کارروائیوں کو ظلم اور جبر بنا کر پیش کیاجاتا ہے۔ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس) کے 57 ممالک ممبر ہوتے ہوئے بھی یہ تنظیم اور اس کے ممبر ممالک منتشر ہیں ان ممالک کی طرح ان ممالک کا میڈیا بھی متحد نہیں ہے۔ پاکستان میں کیبل پر پاکستانی چینلوں کی تعداد50 سے زائد ہے لیکن ہر چینل کی اپنی ترجیحات ہیں نظریاتی محض چند ایک ہیں۔ امریکی میڈیا کی رپورٹس خواہ سراسر جھوٹ اور مسلم اُمہ کے خلاف سازش پر مبنی ہی کیوں نہ ہوں ہمارا میڈیا انہیں نادانستگی میں بڑے اہتمام کے ساتھ نشر اور شائع کرتا ہے۔بد قسمتی سے اسلامی ممالک کے ٹی وی چینلز اور اخبارات اپنا موقف بھی مغرب پر واضح کرنے کی وہ کوشش نہیں کرتے جس کی ضرورت ہے۔ دو روز قبل سابق روسی صدر میخائیل گوربا چوف نے امریکہ کو متنبہ کیا تھا کہ افغانستان میں فتح ممکن نہیں اسے اپنی افواج واپس بلانا ہونگی ورنہ افغانستان اس کیلئے دوسرا ویتنام بن جائے گا… یہ خبر ہمارے چینلز پر تو شاید ہی نشر ہوئی ہو، اخبارات میں زیادہ سے زیادہ دو کالم شائع ہوئی۔ البتہ نوائے وقت میں یہ خبر نمایاں شائع ہوئی اور اس پر ایڈیٹوریل بھی لکھا گیا۔ آج اسلامی ممالک میں ٹی وی چینلز کی تعداد ہزاروں میں ہوگی۔ پاکستانی چینلز بھی پوری دنیا میں دیکھے جاتے ہیں۔ ان چینلز پر گوربا چوف کے بیان کو پورے زورشور اور لیڈنگ سٹوری کے طورپر چلایا جاناچاہئے تھا۔ وہ بھی اس زبان میں جسے مغرب سمجھتا ہے ۔پاکستانی چینلز دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کیلئے دکھائے جاتے ہیں۔ مغرب پر ہمارا موقف واضح نہیں ہوتا۔ یہ صورت حال دیگر اسلامی ممالک کے چینلز کی بھی ہے۔ ہمارے چینلز پر کسی بھی مغربی یا امریکی چینل سے کم محنت نہیں ہوتی۔ کارکردگی بھی چند استثنیات کے ساتھ بہترین ہے لیکن ترجیحات کا چونکہ اپنے اپنے نکتہ نظر سے تعین کیا جاتا ہے اس لئے عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے کے معاملے میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ الجزیرہ چینل نے عرب ممالک کی رائے عامہ کو صہیونیت اور امریکی عزائم سے کافی حد تک آگاہ کیا ہے تاہم اصل بات تو امریکی اور مغربی پراپیگنڈے کا توڑ کرنا ہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ کم از کم نیوز چینلز پر انگلش میں خبریں تو نشر کی جائیں۔ مغرب تک اپنی بات پہنچانے کیلئے انگریزی زبان میں پروگرام شامل کئے جائیں۔ امریکہ نے اگلے سال افغانستان سے انخلاء کا اعلان تو کردیا لیکن وہ بدستور گومگو کی حالت میں ہے۔ گوربا چوف کا بیان اگر امریکہ اور نیٹو ممالک میں گھر گھر پہنچا دیا جائے تو امریکہ نہ صرف افغانستان سے انخلا کا واضح اعلان کردے بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے خوفزدہ عوام کے دبائو اور بھرپور مطالبے پر اسی سال افغانستان سے کوچ کرجائے۔
No comments:
Post a Comment