About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, November 16, 2010

دو قومی نظریہ… اور سیکولرزم (آخری قسط


 15-11-10

فضل حسین اعوان ـ 1 دن 14 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ رہبرانِ قوم اور ان کی قیادت میں آزادی کیلئے جانیں، عزتیں اور آبروئیں قربان کرنیوالوں کے ذہن میں پاکستان کے سیکولر سٹیٹ ہونے کا خاکہ نہیں موجود ہو گا۔ ایسا ہوتا تو قرار داد مقاصد اور 1973ء تک بننے والے ضوابط یا آئین بھی سیکولرزم کی عکاسی کرتے۔73ء کے آئین میں واضح لکھا ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن اور سنہ کی تعلیمات کے برعکس نہیں بن سکتا۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ نظریہ پاکستان اور اسلامی نظریہ کے الفاظ یحییٰ کے دور حکمرانی میں متعارف ہوئے۔ مطالعہ پاکستان پرائمری سطح سے نصاب کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ عرصہ سے مطالعہ پاکستان گریجوایشن نصاب میں بھی شامل ہوچکا ہے۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جن لوگوں نے پاکستان کے تعلیمی اداروں کی شکل تک نہیں دیکھی ان کو نظریہ پاکستان سے کیا آگاہی ہو سکتی ہے؟ وہ اپنے گھر سے حاصل کردہ تعلیم کو ہی کنوئیں کے مینڈک کی طرح کل کائنات سمجھ لیتے ہیں۔ ان کا نامکمل علم ہی ان کی جہالت ہے وہ اسی جہالت کے اندھیرے میں پوری قوم کو دھکیل دینا چاہتے ہیں۔
گو قیام پاکستان کے حوالے سے چودھری رحمت علی کا ایک متنازعہ کردار ہے۔ انہوں نے قائداعظم کے بارے میں بڑی یاوا گوئیاں کی ہیں تاہم نظریہ پاکستان کا لفظ پہلی مرتبہ چودھری رحمت علی نے 1934ء میں استعمال کیا تھا۔ 
The effect of Pak-Ideology on the myth of Indian unity has been devastating. It has destroyed the cult of uni-nationalism and uni-territorialism of India and created instead the creed of the multi-nationalism and multi-territorialism of "Dinia" (South Asia).
)Pakistan - The Father Land of the Pak Nation. By: Ch. Rehmat Ali, P:205 )
ہندوستانی وحدت کے موہوم راز پر پاک آئیڈیالوجی کے بہت تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے وحدانی علاقائیت ، وحدانی قومیت کے عمومی تصور کو ختم کر دیا اور اس کے بجائے کثیر القومیت اور کثیر علاقائیت یعنی دینیہ (جنوبی ایشیا) کے تصور کو پروان چڑھایا۔
سیکولر نظریات کے حامل لوگ نہ جانے قائدِ اعظم سے یہ کیوں منسوب کر دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے حالانکہ یہ کوئی ٹھوس دلیل اور حوالہ نہیں دیتے۔ آئیے قائداعظم کی تقریر کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
It is by our own dint of arduous and sustained efforts that we can create strength and support our people not only to achieve our freedom and independance but to be able to maintain it and live according to Islamic ideals and principles.
Pakistan not only means freedom and independance but the Muslim Ideology which has to be preserved, which has come to us as a precious gift and treasure and which we hope other will share with us.
(Ref.:Some recent speeches and writing of Mr.Jinnah. Published By: Sh. Muhammad Ashraf, Lahore, 1947. Page:89. )
ہم اپنی سخت اور پیہم جدوجہد کے ذریعے قوت بہم پہنچا سکتے ہیں ، ہم نہ صرف آزادی کے حصول کیلئے اپنے لوگوں کی معاونت کر سکتے ہیں بلکہ ہم انہیں اس قابل بھی بنا سکتے ہیں کہ وہ اس کو قائم رکھیں اور اسلامی آدرش اور اصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔
پاکستان کا مطلب محض آزادی نہیں ہے، اس کا مطلب مسلم آئیڈیالوجی بھی ہے جس کا تحفظ کیا جانا باقی ہے، جو ہم تک ایک قیمتی تحفے اور خزانے کے طور پر پہنچا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دوسری (اقوام) بھی اس میں حصہ دار بن سکتی ہے۔
اسلام دشمن طبقہ نے جب قائد پاکستان کی ایک تقریر کا من چاہا مفہوم اخذ کرتے ہوئے یہ منفی پروپیگنڈا شروع کیا تھا کہ پاکستان کا دستور اسلامی شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا... تب قائد پاکستان نے بھرپور انداز میں اس شرانگیزی کی مذمت کی تھی۔
25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد پاکستان نے فرمایا تھا :
میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا، جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں، جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔میں ایسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہو چکے ہیں، یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر مسلمانوں کو بھی کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے۔
علاوہ ازیں قائد پاکستان نے 4 فروری 1948ء کو سبی میں خطاب کے دوران یہ واضح ترین الفاظ بھی ارشاد فرمائے:
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر ہے جو ہمارے عظیم واضعِ قانون پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں یہ فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔
قائد کی حیات کا تجزیہ کی جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ قائدِاعظم پاکستان کو ایک اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے ان تمام تر جدوجہد اسی مقصدکیلئے تھی، قوم بھی یہی چاہتی تھی لیکن عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے جو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔


No comments:

Post a Comment