8-11-2010
فضل حسین اعوان
بل گیٹس پچھلی صدی کے آخر سے لے کر آج بھی سوائے ایک دو سال کے دنیا کے امیر ترین لوگوں کی لسٹ میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کی کمپنی کمپیوٹر اپریٹنگ سسٹم، سوفٹ وئیر اور اس سے متعلق ونڈوز بناتی ہے۔ اس کمپنی کے ماہرین ہر سال پاکستان آتے ہیں اور کمپیوٹر انجینئرنگ میں ٹاپ کرنے والے 30 لڑکوں کو انٹرویوز کے بعد پُرکشش معاوضے پر ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ ماہرین ہر غریب اور ترقی پذیر ممالک کے ٹاپ مائنڈز کو بل گیٹس کی کمپنی میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ کمپنی کی کامیابی میں باقی عوامل کے ساتھ یہ بھی ایک اہم پہلو ہے۔ یورپ امریکہ اور دیگر ممالک پاکستان جیسے ممالک کے کے دیگر شعبوں میں ٹیلنٹ کے ساتھ بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔ ملکِ عزیز میں ناانصافی اور میرٹ کی مٹی پلید ہونے کے باعث بینکار، ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسی علوم کے اساتذہ اور دیگر ٹیکنو کریٹس مایوس ہو کر بھی دوسرے ممالک کا رخ کر لیتے ہیں۔ بہت کم محب وطن اور اہل لوگ مادرِ وطن کا حق ادا کرنے کے لئے مخدوش حالات میں بھی پاکستان اور انسانیت کی خدمت کا عزم لئے اپنا قومی و اخلاقی فریضہ انجام دیے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی نیک نامی جو بھی اور جتنی بھی ہے انہی بے لوث لوگوں کی مرہونِ منت ہے۔ کوئی بھی معاشرہ، ادارہ اور ملک اہل لوگوں سے تہی دست ہو کر تری کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ جب ہمارا سارا ٹیلنٹ باہر منتقل ہو جائے گا تو ترقی کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟ اس حوالے سے آج ضرورت ہے کہ اہل لوگوں کو انجینئرنگ، میڈیکل اور بینکاری جیسے شعبوں میں ٹاپ کرنیوالوں کو ملک میں سرکاری اور سول اداروں میں پُرکشش معاوضہ دے کر ایڈجسٹ کیا جائے، گو یہ معاوضہ بل گیٹس جیسے لوگوں کے پیش کردہ معاوضے سے کم ہو گا۔ اسی پر ٹیلنٹ کو مائل اور قائل کرنے
کے لئے موٹیویشن کی ضرورت ہے۔ جذبہ حب الوطن اجاگر اور پیدا کرنے کی ضرورت ہے یہ صرف سلیبس اور نصاب کی کتابیں پڑھنے اور پڑھانے سے نہیں ہو سکتا، اس کے لئے گھر کی دہلیز کے اندر سے کوشش کی جانی چاہیے اور یہ سلسلہ اساتذہ تعلیم کے ابتدائی درجے سے شروع کر کے آخری درجے تک جاری رکھیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب نئی نسل کو دو قومی نظریے، نظریہ پاکستان، تحریک آزادی اور آزادی کی خاطر دی جانے والی جانی، عزت و آبرو اور مالی قربانیوں سے آگاہ کیا جائے گا۔ لاہور میں یہ فریضہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ایوان کارکنان تحریک پاکستان کماحقہ ادا کر رہا ہے۔ کچھ شہروں میں یہ کام اس کے ذیلی ادارے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ان کی تمام نونہالوں یا تمام نونہالوں کی ان اداروں تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ یہ کام اس صورت آسانی سے ہو سکتا ہے جب ہر استاد طلبا اور ہر محب وطن اور نظریاتی پاکستانی اپنے حلقہ احباب کےلئے نظریہ پاکستان کی انجمن اور پاکستان سے محبت کا مجسم پیکر بن جائے۔
No comments:
Post a Comment