23-11-10
پلاننگ
فضل حسین اعوان ـ 1 دن 8 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
برطانوی جنرل آرتھر پر سیول کی کمانڈ میں کیل کانٹے سے لیس ملایا کے دفاع پر مامور ایک لاکھ تیس ہزار سپاہ کو صرف 30 ہزار فوجیوں کی مدد سے جاپانی جنرل یاماشیتا نے محاصرہ کرکے بے بس کر دیا۔ زمین سے ٹینک آگ اگل رہے تھے تو فضا سے جہاز بارود برسا رہے تھے۔ جنرل تو یوموکی یاما شیتا نے جنرل پر سیول کو سرنڈر وارننگ دی تو پرسیول نے ایک ہفتے کا وقت مانگا۔ تاکہ وہ اپنی حکومت سے مشورہ کر سکے۔ جنرل شیتا نے مہلت دینے سے انکار کر دیا۔ جنرل پرسیول نے 4 دن پھر دو اور آخر میں صرف ایک دن کی مہلت مانگی۔ جنرل شیتا نے کہا ’’ایک دن کیا ایک گھنٹہ بھی مہلت چاہئے تو اس دوران بھی بمباری ہوتی رہے گی۔ جنرل شیتا کی اس وارننگ پر جنرل پرسیول نے ایک لاکھ تیس ہزار برطانوی‘ آسٹریلین اور انڈین افواج کو سرنڈر کا حکم دے دیا۔ 15 فروری 1942ء کو ہونے والا یہ برطانوی تاریخ کا سب سے بڑا سرنڈر تھا۔ جنرل شیتا کو معلوم تھا کہ اس کے پاس نفری کم ہے لیکن وہ جانتا تھا کہ دشمن کو فضائیہ کی مدد حاصل نہیں۔ جنگ عظیم دوم میں ہی جاپانی فوج کئی علاقوں کو تاراج کرتی ہوئی برما میں دو سو میل تک گھس آئی۔ جاپانی فوج کیما پہاڑی پر قبضہ کرکے آگے بڑھنا چاہتی تھی کہ اس دوران اتحادی فوج سامنے مورچہ بند ہو چکی تھی۔ اس فوج میں زیادہ تر انڈین فوجی تھے۔ کئی دن تک دونوں طرف سے غیر معاہداتی سیز فائر رہا۔ پھر ایک پلاننگ کے تحت 50 پچاس توپوں کی پانچ لائنیں 100 سو گز کا فاصلہ چھوڑ کر لگا دی گئیں۔ ان کا رخ جاپانی فوج کے زیر قبضہ پہاڑی کی طرف تھا۔ رات آٹھ بجے توپخانے کو فائر کھولنے کا حکم دیا گیا پہلی لائن کی توپیں خاموش ہوتیں تو دوسری‘ تیسری پھر چوتھی اور پانچویں لائن کی توپیں گولے برسانے لگتیں۔ یہ سلسلہ طلوع آفتاب تک جاری رہا۔ سورج نمودار ہوتے ہی بمبار طیارے ایک طرف سے اڑتے نظر آئے ان کا ٹارگٹ بھی کیما پہاڑی تھی۔ بمباری کرکے یہ جہاز اپنے مستقر تک پہنچے نہیں ہوں گے کہ اتنے ہی مزید آکر تباہی مچانے لگے۔ شام تک ہوائی حملے لگاتار ہوتے رہے۔ پانچ روز تک رات کو توپخانہ دن کو بمبار جہاز پہاڑی کے پرخچے اڑاتے رہے۔ چھٹے روز فوج پہاڑی پر گئی تو ہر طرف انسانی اعضا‘ گولوں اور بموں کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ 1944ء میں جاپان کو یہ تباہی دیکھ کر برما سے پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ برطانوی کمانڈر جنرل ویول کو علم تھا کہ جاپانی فوج کو سردست اس محاذ پر فضائیہ کی مدد حاصل نہیں۔ جنگوں میں کامیابی کیلئے پلاننگ سب سے اہم ہے۔ ہر محاذ پر کامرانی کیلئے پوزیشن اور سچوایشن کے مطابق منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضورؐ نے ہر غزوہ میں حالات کے مطابق منصوبہ بندی کی۔ سپورٹس مین سپرٹ کا تقاضا ہے کہ شکست کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے اس سے سبق سیکھا جائے۔ یہ صرف کھیل کی حد تک ہے۔ جنگ میں ایسا نہیں۔ جنگ ہارنے کیلئے نہیں‘ صرف اور صرف جیتنے کیلئے لڑی جاتی ہے۔ یہ اپنی طرف سے دفاع ہو یا جارحیت‘ 71ء کی جنگ میں آدھا ملک جاتا رہا۔ اس شکست کا کوئی تو ذمہ دار ہے؟ جو ذمہ دار ہے وہ اب تک منظرعام پر کیوں نہیں لایا گیا۔ 1999ء میں سانحہ کارگل بھی کسی کی نالائقی‘ نااہلی اور پیشہ ورانہ سستی و کاہلی کے باعث رونما ہوا۔ مشرف کہتے ہیں کہ اس آپریشن سے وزیراعظم نواز شریف آگاہ تھے۔ بحث یہ نہیں کہ کون آگاہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ جن کے ذمے یہ مشن تھا۔ انہوں نے خود اپنے ذمے لیا یا کسی نے ذمہ لگایا اس میں ناکامی کیوں ہوئی؟ مشرف نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’ہمیں علم نہیں تھا کہ دشمن ایئر اٹیک کرے گا‘‘ ایک جرنیل کی طرف سے یہ کسی پلاننگ‘ مینجمنٹ اور پیشہ ورانہ صلاحیت ہے کہ دشمن کی طاقت اور مہارت کا اندازہ کئے بغیر مہم جوئی شروع کر دی۔ جس کے نتیجے میں سینکڑوں مجاہدین اور فوجی شہید ہو گئے۔ بعض نے انتہائی بے چارگی میں جان دی۔ ان تک اسلحہ اور خوراک تک نہ پہنچائی گئی۔ وہ گھاس اور پتے کھانے پر مجبور ہوئے اور بالآخر اپنی بساط کے مطابق لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ مشرف ان کے خون کا قرض ادا کرنے کے بجائے تخت نشین ہوئے۔ کارگل سانحہ کا جواز پیش کرتے ہوئے مشرف نے کہا تھا کہ اس سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہوا۔ سانحہ کارگل کے باعث مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا تو قوم کی اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی تھی۔ ہوا یہ کہ مشرف کے احمقانہ اقدامات اور مجوزہ حلوں سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی اور دیرینہ موقف کو شدید نقصان پہنچا۔ مشرف دور کے اقوام متحدہ میں سفیر شمشاد احمد خان نے کہا ہے کہ مشرف نے انہیں اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر بات کرنے سے منع کر رکھا تھا۔ اگر یہ درست ہے تو ملک و قوم سے واضح اور صریح غداری ہے۔ بہرحال سانحہ مشرقی پاکستان اور کارگل کے جو بھی ذمہ دار ہیں وہ قابل معافی نہیں۔ سیاسی حکومتیں اپنے طور پر تحقیقات کریں۔ فوج کا اپنا احتسابی سسٹم ہے۔ وہ اسی سسٹم کے تحت فوج کی بدنامی کا باعث بننے والوں کو بے نقاب کرتے ہوئے عبرت کا نشان بنا دیں۔ خواہ کسی کو بیرون ملک سے پٹہ ڈال کر لانا پڑے یا قبر سے سرمہ بنی ہڈیوں کو نکال کر لٹکانا پڑے۔ مشرف کا یہ کہنا کہ ’’ہمیں علم نہیں تھا کہ دشمن ایئر اٹیک کرے گا‘‘ قابل گرفت ہے ایسے شخص کو جرنیل اور چیف ہونا چاہئے تھا؟
No comments:
Post a Comment