About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, November 11, 2010

آنسو


جمعرات ، 11 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 14 گھنٹے 10 منٹ پہلے شائع کی گئی
آنسو کیا ہیں؟ آنکھوں سے گرنے والے پانی کے چند قطرے‘ یہ انسانی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ اکثر دل میں اٹھا ہوا بحر بیکراں آنکھوں کے ذریعے بہہ کر تھم جاتا ہے۔ آنسو کبھی کسی کی یاد میں گرتے ہیں، کبھی کسی کے بچھڑنے کے غم میں اور کبھی کسی کے ملنے کی خوشی میں۔ آنسووں میں بڑا وزن ہے۔ انسان منوں وزن اٹھا سکتا ہے۔ دو آنسووں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ گر جاتے ہیں۔ عظیم مقصد کیلئے گریں تو انسانی توقیر و عظمت اوج ثریا پر پہنچ جاتی ہے۔ عیاری اور مکاری سے بہائے جائیں تو بہانے والا نظروں سے گر جاتا ہے۔ آنسووں سے کئی کہکشائیں جنم لے سکتی ہیں اور انہی میں کئی کائناتیں بھی ڈوب سکتی ہیں۔ آنسووں میں بڑی طاقت ہے۔ آنسو دعا بن جاتے ہیں۔ صدا بن جاتے ہیں۔ مدعا بن جاتے ہیں جفا و وفا بن جاتے ہیں‘ رب کائنات کے سامنے گڑگڑانے سے شفا بھی بن جاتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے حافظ قرآن سند یافتہ عالم فاضل دوست نے بتایا کہ اس کے ہاتھ کی انگلیوں کے جوڑوں میں شدید درد ہوتا ہے۔ دوا لینے سے فرق نہ پڑا تو اپنے استاد کے پاس چلے گئے۔ استاد نے دم کیا اور پوچھا فرق پڑا ہے‘ جواب نفی میں تھا۔ دوسری اور تیسری بار دم کرنے سے بھی افاقہ نہ ہوا تو استاد محترم نے کہا، جاو وضو کرو‘ دو رکعت نفل ادا کرکے خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا کرو اس دوران جو آنسو گریں انگلیوں پر لگاو۔ نوجوان نے ایسا ہی کیا اس کے بعد سے درد غائب ہے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے بچے اور بچیوں کے چہرے پر دانے نکل آتے ہیں۔ ان کا بھی یہی آزمودہ علاج ہے۔ جوڑوں کے دردوں اور دیگر امراض سے شفا کیلئے بھی یہ نسخہ استعمال کرنے میں حرج نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ شان کریمی جوش میں آ جائے۔
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
پاکستانیوں کو سب سے زیادہ آنسو شرفو بھائی نے دئیے۔ اتنا شاید پاکستان کی تاریخ میں لڑی جانے والی جنگوں میں خون نہ بہا ہو جتنے مشرف کی ذاتی مفادات پر مبنی پالیسیوں‘ نالائقیوں اور نااہلیوں پر پاکستانیوں نے آنسو بہائے۔ آج بھی مشرف کے کئے دھرے کے باعث بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہہ رہا ہے اور آنسو بھی ٹپک رہے ہیں۔ مشرف گو دربدر اور نگر نگر پھر رہے ہیں۔ لیکن بد زبانی اور بدعملی سے باز نہیں آتے۔ جس امریکہ نے انہیں ٹشو کی طرح استعمال کرکے گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ وہیں جا کر نظریہ پاکستان اور دو قومی نظرئیے کا مذاق اڑا رہے ہیں‘ کہتے ہیں کہ پاکستان مذہب کے نام پر قائم نہیں ہوا تھا۔ تو کیا یہ آپ کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا؟ پاکستان میں چونکہ پاگلوں‘ بدبختوں اور کم بختوں کے بھی سیاست میں آنے پر پابندی نہیں۔ اس لئے مشرف بھی سیاست میں آگئے۔ اپنی مسلم لیگ کو قائد کی مسلم لیگ کہہ رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر پاگل پن کیا ہو گا۔ سیاست میں مفاہمت رواداری تحمل اور برداشت نہایت ضروری ہے۔ لال مسجد سانحہ اور اکبر بگٹی کے قتل پر کبر اور تفاخر کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر یہی ان کے نظریات ہیں تو پاکستان آکر دکھائیں۔ ان کے ساتھی شہباز چودھری‘ ایاز چودھری‘ فواد چودھری‘ نامراد چودھری‘ راگی بیراگی قریشی میراثی ان کو سمجھائیں۔ سیاسی لوازمات کے بارے میں بتائیں۔ خار بوئیں گے تو لالہ و گُل نہیں اگیں گے۔ مارکوس اور پنوشے جیسی حرکتیں کرکے خمینی اور اکینو جیسی پذیرائی کی توقع نہ رکھیں۔ خدا نے انہیں منڈیلا اور مہاتیر محمد بننے کا موقع فراہم کیا یہ میر جعفر اور میر صادق بن گئے۔ بڑے عہدوں پر رہنے والے قومی رازوں کے امین ہوتے ہیں مشرف نے یہ کہہ کر اس امانت میں خیانت کی کہ غوری اول اور دوم کے تجربات ناکام ہوئے تھے۔ یہ بات شاید ڈاکٹر قدیر کی مخاصمت میں کی ہو لیکن یہ قومی مفاد کو کاری ضرب پہنچانے کے مترادف ہے۔ ایسے ہی بے ہودہ اقدامات اور بیانات کے باعث اہل وطن کی آنکھوں میں مشرف کے لئے نفرت کی چنگاریاں ہیں۔ ان کے لئے کسی آنکھ میں کوئی آنسو نہیں۔ ویسے آنسو کا مشرف سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر حیا ہوتی تو اپنے ہی آنسوﺅں میں ڈوب جاتا مگر اس بدبخت کو یہ توفیق کہاں وہ تو گناہ پر اکڑ رہا ہے۔


No comments:

Post a Comment