About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, November 12, 2010

مسٹر ریما

جمعۃالمبارک ، 12 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان
اوورسیز ایمپلائیمنٹ کارپوریشن OEC کا ڈسا ہوا نوجوان اپنی بپتا سنا رہا تھا۔ اس نے بھی جنوبی کوریا جانے کے سہانے خواب دیکھے تھے۔ لاہور سے دوست کو ساتھ لے کر اسلام آباد گیا۔ سامنے والی کھڑکی سے فارم حاصل کرنے کی کوشش کی جو مقررہ قیمت 200روپے میں کسی کو ملتا تھا کسی کو نہیں۔ تاہم پچھلی کھڑکی سے دو ہزار میں دستیاب تھا۔ اس کھڑکی سے فارم حاصل کرنے کی مقررہ تاریخ گزر جانے کے بعد بھی سہولت بہم پہنچائی جاتی رہی۔ اس نوجوان نے دو ہزار کا فارم لیا۔ درخواستیں جمع کرانے والے بے شمار، نوکریاں محدود، اکثر شارٹ کی تلاش میں، اس کو بھی تین لاکھ روپے میں شارٹ کٹ مل گیا۔ سات آٹھ سو لوگ ویزے لگوا کر چلے گئے، پندرہ ہزار کے قریب کی باری نہ آئی۔ مذکورہ نوجوان کو شارٹ کٹ دکھانے والے ملے، نہ باہر جانے کے کاغذات اور نہ ہی اس راہ میں خرچ ہونیوالے تین لاکھ روپے۔ دو اڑھائی سال سے یہ نوجوان قرض اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ لاری اڈے پہنچے تو نوسر باز اس کے ساتھی کی جیب خالی کر گیا۔ پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے کچی رپورٹ درج کی اور تسلی دے کر وداع کر دیا۔ ان کے پاس واپسی کا کرایہ بھی نہیں تھا۔ اگلے روز موبائل اونے پونے فروخت کیا اور ریلوے سٹیشن چلے آئے۔ شاید قدرت کو ان کی حالت پر ترس آ گیا۔ نوسر باز پر ان کی نظر پڑی تو اسے قابو کر لیا۔ تھانے لے جانے لگے تو دیگر نوسرباز بھی صلح کے لئے سرگرم نظر آئے۔ سادہ لوح لاہوریوں کو بتایا گیا کہ تھانے جائو گے تو آپ کے ہاتھ کیا آئے گا، اپنا نقصان پورا کر لو۔ نوسرباز نے منت کی، قسمیں کھائیں۔ لاہوریوں کو کچھ کچھ یقین آ گیا۔ ڈوبی رقم برآمد ہوتی نظر آ رہی تھی۔ وصولی کے لئے اسے رکشے میں بٹھایا ۔ ارد گرد دونوں بیٹھ گئے۔ نوسر باز جس نے نوسر بازی فراڈ اور دھوکہ دہی چھوڑنے کی قسمیں کھائی تھیں، نے ایک گھر کے سامنے رکشہ رکوایا۔ لاہوریوں سے کہا دروازے پر رکیں، میں 27ہزار روپے لے کر یوں آیا یہ دروازے پر منتظر مجرم رہے۔ اس نے آنا تھا نہ آیا۔ ان کے ساتھ وہ ہو گیا کہ دیہاتی نے چور پکڑا اور رات کو ہی اسے لیکر تھانے کی طرف چل پڑا راستے میں چور نے کہا میری چادر آپ کے گھر رہ گئی ہے تم یہیں رکو میں لے کر آتا ہوں۔ دیہاتی نے کہا جائو جلدی آنا… دو چار ماہ بعد پھر وہی چور پکڑا گیا صاحبِ خانہ پھر عازمِ تھانہ ہوئے۔ راستے میں چور نے پھر کہا کہ چادر آپ کے گھر رہ گئی ہے۔ اس کی بات پوری ہونے سے قبل دیہاتی بولا تم دغا باز ہو پچھلی بار چادر لینے گئے اور واپس نہ آئے۔ مجھے بیوقوف سمجھ رکھا ہے! اب میں تمہیں نہیں جانے دونگا۔ اب تم یہیں رکو میں جا کے چادر لے آتا ہوں… اسلام آباد اور پنڈی میں لٹنے والے نوجوانوں کی خوش قسمتی یا بدقسمتی لاہور بس سٹینڈ پر ان کے ہتھے وہی پنڈی وال پھر چڑھ گیا۔اب وہ اس کی باتوں میں نہ آئے اور اسے پولیس کے پاس لے گئے۔ بے ہوش کرنیوالی ٹافیاں اور سپاریاں برآمد ہوئیں۔ پنڈی وال چالاک تھا الٹا ’’این آر او‘‘ مدعی پر ڈال دیا۔ پولیس جو زبان سمجھتی ہے ان کے پاس تھی نہیں یوں یہ اندر اور نوسر باز بری۔ آپ یوں سمجھئے کہ لاہوریے عوام ہیں اور پنڈی وال حکمران، پولیس کا کردار وہی ہے جو اس کا تھا اور ہے۔ ایک واقعہ فیاض قادری نے تحریر کیا۔ خواجہ سرا نے خیرات کیلئے آواز لگائی۔ خاتون خانہ نے 20 روپے دے کر رخصت کیا۔ تھوڑی دیر بعد وہی خواجہ سرا پھر آ گیا۔ خاتون نے پوچھا ’’اب کیا لینا ہے؟‘‘ مسٹر ریما نے خاتون کے سوال کا جواب مزید سوال کی صورت میں دیا ’’بی بی جی! آپ نے مجھے کتنے روپے دیئے تھے؟‘‘ خاتون نے کہا’’20 روپے‘‘ اس پر ریما نے 5 ہزار کا نوٹ خاتون کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا’’پھر یہ رکھ لیںآپ نے یہ نوٹ دیا ہے‘‘ خاتون نے شکریے کے ساتھ نوٹ تھام لیا اور انعام کے طور پر اسے دو تین سو روپے دینے کی کوشش کی۔ خواجہ سرا نے کہا ’’نہیں بی بی جی، صرف 20 روپے دیجئے۔ یہی میرا حق ہے۔ میں مانگتا ضرور ہوں اپنی دیانتداری نہیں بیچتا ‘‘ فراڈیوں، دھوکے بازوں کمشن ماروں کی دنیا میں ایماندار اور دیانت دار لوگ بھی موجود ہیں۔ وہ مرد ہوں، خواتین یا تیسری مخلوق ان ہی کے دم قدم سے دنیا آباد ہے۔ تاہم ہمارے حکمرانوں کیلئے مسٹر ریما ہی آئیڈیل بن جائے تو معاملات درست سمت کی طرف گامزن اور عوام کے دکھ دور ہو سکتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment