منگل ، 16 نومبر ، 2010:
فضل حسین اعوان ـ 13 گھنٹے 51 منٹ پہلے شائع کی گئی
بغداد کی جامع مسجد میں داخل ہو کر ایک شخص سوئے ہوئے مسافروں میں کسی کو تلاش کر رہا تھا۔ فرزندِ مکہ امام شافعیؒ مسجد میں اپنے دو شاگردوں کے ساتھ محوِ گفتگو تھے۔ آپ نے مشعل بردار کو یوں کسی کو ڈھونڈنے میں سرگرداں پایا تو ربیع بن سلمان سے کہا کہ اجنبی سے پوچھو اس کا حبشی غلام تو گُم نہیں ہو گیا جس کی ایک آنکھ ناقص ہے۔ اجنبی نے ربیع کا سوال سنا تو حیران ہو کر امام شافعیؒ کے پاس چلا آیا اور عرض کی کہ آپ کو علم ہے تو بتا دیجئے مجھے میرا غلام کہاں ملے گا؟ امام نے فرمایا کسی قید خانے میں ہو گا۔ یہ شخص عجلت میں اپنے غلام کی تلاش میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو غلام اس کے ساتھ تھا۔ اس نے امام کا شکریہ ادا کیا اور امام صاحب کے شاگردوں کو ششدر اور حیرت زدہ چھوڑ کر چلا گیا۔ اسمٰعیل بن یحیٰی مزنی نے بڑی بے تابی سے پوچھا استاذِ مکرم ماجرہ کیا ہے؟ یہ سب آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ امام شافعی نے زیر لب مسکراتے ہوئے فرمایا ’’وہ شخص صرف سیاہ فام حبشیوں میں ہی کسی کو تلاش کرتے ہوئے ہر ایک کی بائیں آنکھ پر روشنی ڈال رہا تھا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اس کا بائیں آنکھ میں نقص والا حبشی غلام غائب ہے… جب غلام بھوکا ہوتا ہے تو چوری کرتا ہے۔ پیٹ بھرا ہو تو بدکاری۔ دونوں صورتوں میں جو بھی ہو مقدر قید ہی ہوتا ہے‘‘۔ یہ حضرت امام شافعیؒ کا وژن تھا۔ حالات کا جائزہ لیکر نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت اور اہلیت۔ ہمارے حکومت ساز اور آوارہ باز اس اہلیت سے بالکل عاری ہیں یا اتنے جینئس کہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کے منطقی نتیجے کو بدل دینے پر قادر۔ اگر دوسری بات درست ہے تو ان کو انسان دشمن مافوق الفطرت تسلیم کر لینا چاہئے۔ جن کو اپنے مفادات کے سوا کسی سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کو آج سے غرض ہے آنے والے کل کی فکر نہیں۔ اکثر اسلامی ممالک میں بادشاہتیں رائج ہیں۔ حکمرانوں کے خلاف تحریکیں بہت کم نظر آتی ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ لوگ خوشحال ہیں اس لئے حکمرانوں سے خوش ہیں۔ شہر سے سینکڑوں میل دور پہاڑیوں میں بھی چار پانچ گھر ہیں تو ان تک سڑک پانی بجلی اور گیس کی سہولت پہنچا دی گئی ہے، تعلیم اور صحت کی فری سہولت ہے۔ بیروزگاری کی صورت میں حکومت تعاون کرتی ہے۔ یوں عوام اور حکمرانوں کے مابین اعتماد اور دوستی کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔ ہمارے ہاں جمہوری حکومتیں اتنا عرصہ بھی نہیں نکال پاتیں جتنا دودھ کو جاگ لگانے کے بعد دہی بننے تک لگتا ہے کہ غیر مقبول ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب زمام اقتدار نالائقوں نااہلوں اور مفاد پرستوں کے ہاتھ میں آ جانا ہے جو بالکل VISION LESS ہیں۔ آج کے حکمرانوں کے کارنامے قوم کے سامنے ہیں۔ بجلی تیل گیس کی قیمتیں امور مملکت چلانے کے لئے بڑھا دی جاتی ہیں اس کے باوجود کہ ان کی قلت بھی ہے۔ ان کی وافر پیداوار کے لئے کوئی طویل المدتی پالیسی نہیں ہے۔ بیرونی دوروں کی بھرمار ہے۔ عدلیہ کے ساتھ مستقل محاذ آرائی۔ اربوں کے قرضے معاف، کھربوں کی کرپشن کی کہانیاں، عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایت پر ٹیکسوں میں اضافہ، عوام کے لئے کوئی ریلیف نہیں تمام وسائل حکمرانوں کے عزیز و اقارب اور دوستوں کے لئے۔ عام آدمی ایسے اندازِ حکمرانی پر مشتعل ہے۔ اس کے باوجود ایک بار پھر تیل اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا اب فلڈ ٹیکس آر جی ایس ٹی لگانے کی تیاری۔ مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، اے این پی اور مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی نے بھرپور مخالفت کی ہے۔ اس کے باوجود وزیراعظم نفاذ کے لئے ’’پرعزم‘‘ اور سرگرم۔ کل کہا کہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں تمام وزرائے اعلیٰ نے ٹیکسوں کے نفاذ کی حمایت کی تھی۔ ایم کیو ایم اور وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔ آج کہہ رہے ہیں کہ ریفارمڈ جی ایس ٹی پر سب کو راضی کر لیا مسلم لیگ ن بھی مخالفت نہیں کرے گی۔ جبکہ اپوزیشن اور تمام اتحادی پارٹیاں بدستور فلڈ ٹیکس اور آر جی ایس ٹی کے نفاذ کی حمایت پر تیار نہیں۔ حکومت کے مجوزہ ٹیکس نافذ ہوئے تو مہنگائی کے طوفان میں مزید اضافہ ہو گا۔ جو شاید عوام کی برداشت سے باہر ہو اور عوام طوفان بن کر سب کچھ بہا کر لے جائیں اس کا اپوزیشن اور حکومت کی اتحادی پارٹیوں کو تو ادراک ہو گیا ہے۔ سب کچھ سمیٹنے اور لپیٹنے کی بے پایاں خواہش رکھنے والوں کی آنکھ پر مفادات اور آئی ایم ایف کی ہدایات کی پٹی بندھی ہے۔ آئی ایم ایف نے کہہ دیا ہے کہ آر جی ایس ٹی نافذ نہ ہوا تو تین ارب چالیس کروڑ ڈالر کی مزید قسطیں نہیں ملیں گی۔ اس بڑی رقم کے حصول کے لئے حکمران پارٹی مرے جا رہی ہے، پاگل ہوئے جا رہی۔ اندازہ کیجئے حکمرانوں میں وژن کا فقدان ہے یا عوام کی کھال کھینچ کر اپنے اکائونٹس بھرنے کا ہیجان۔
No comments:
Post a Comment